• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈیفنس میں تین دوستوں کے کرنٹ سے جاں بحق ہونے کی دلخراش داستان

کراچی،10 سے 12 اگست کے درمیان ہونے والی بارشوں میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والے تین دوست


کراچی(نیوز ڈیسک) ڈیفنس میں موٹر سائیکل سوار تین دوستوں طلحہ تنویر، حمزہ طارق اور فیضان سلیم کے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے کے حوالے سے اپنے گھر کی بالکنی سے یہ دلخراش حادثہ دیکھنے والی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ایک انتہائی المناک اور خوفناک حادثہ تھا۔ نوجوان جب موٹر سائیکل پر ڈیفنس میں ایک کھمبے کے پاس سے گزرے تو کرنٹ لگنے سے گر گئے۔ ایک تو پانی میں ڈوب گیا اور موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ باقی دو نوجوان زندگی بچانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ میں نے اپنے ملازمین سے کہا جاؤ جو کچھ کر سکتے ہو تو کرو۔ مگر میں یہ منظر دیکھ کر صدمے سے خود بیہوش ہوگئی تھی۔ جب ہوش آیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ تینوں نوجوان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ منظر مجھے بالکل ڈراؤنے خواب کی طرح لگتا ہے۔ میں اس کو نہ تو یاد کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی بات کرنا چاہتی ہوں۔ ایک عینی شاہد کے مطابق روڈ پر کرنٹ تھا۔ وہاں موجود لوگ بانس اور رسی بار بار پھینک رہے تھےمگر کرنٹ کی گرفت میں ہونے کی وجہ سے ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ رسی یا بانس پکڑ سکیں اور اسی کرنٹ کی وجہ سے لوگ چاہنے کے باوجود ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکتے تھے۔عینی شاہد کے مطابق ایک نوجوان بار بار ہاتھ پاؤں مار کر اپنے دوست کو پکڑ کر باہر نکالنے اور خود اٹھنے کی کوشش کرتا رہا مگر کرنٹ کی گرفت سے نہ نکل سکا۔جن دو نوجوانوں میں زندگی کی رمق باقی تھی انھوں نے تین، چار مرتبہ کہا کہ لائٹ بند کرو۔عینی شاہد کے مطابق وہ خود اور وہاں موجود افراد فون پر کراچی الیکڑک کمپنی کو بار بار بجلی بند کرنے کی درخواستیں کرتے رہے اور بجلی 20 منٹ بعد بند ہوئی جس کے بعد نوجوانوں کو پولیس موبائل اور امدادی کارکنان نے موقع پر پہنچ کر نکالا۔‘ان پر مٹی ڈالی گئی کہ شاید کرنٹ کے اثرات ختم ہوسکیں مگر تھوڑی ہی دیر میں ایک اور نوجوان چل بسا جبکہ تیسرا نوجوان ایدھی سروس کی ایمبولنس میں دم توڑ گیا تھا۔جاں بحق نوجوان حمزہ طارق کے والد محمد طارق کے مطابق واقعے کے دن تینوں دوست موٹر سائیکل پر میری دکان کے آگے سے گزرے۔ حمزہ موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ طلحہ اس کے پیچھے اور فیضان اس کے بعد بیٹھا ہوا تھا۔جب بھی یہ تینوں دوست میری دکان کے سامنے سے گزرتے تو اتر کر مجھے ضرور ملتے اور بتاتے کہ کہاں جا رہے ہیں مگر اس روز بارش ہورہی تھی، حمزہ رکا نہیں اور تینوں نے سڑک ہی پر سے ہاتھ ہلایا اور چلے گئے۔’یہ کوئی خاص بات نہیں تھی مگر مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا اور میں نے حمزہ کو فون کیا تو حمزہ نے کہا کہ بجلی نہیں ہے گھر میں بور ہو رہے تھے، اس لیے یونیورسٹی کے دوستوں سے ملنے جا رہے ہیں۔ پتا نہیں کیا ہوا میں کہتے کہتے رک گیا کہ نہ جاؤ مگر خدا خافظ کہہ کر فون بند کردیا تھا۔تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ حادثے کی اطلاع مل گئی۔حمزہ کے والد محمد طارق کا کہنا تھا کہ یہ تینوں ہم مزاج بچے تھے۔ ایک ہی سکول میں پڑھے، ایک ہی ساتھ کھیلے، ایک ہی ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ تینوں کی دوستی ڈیفنس گارڈن میں مشہور تھی۔محمد طارق کے مطابق ’حمزہ کو فوج میں جانے کا بہت شوق تھا دو بار اس نے امتحان دیا مگر اس کو منتخب نہیں کیا گیا جس پر اسے مایوسی ضرور ہوئی مگر اس کے بعد اس نے ایم بی اے میں داخلہ لے لیا تھا اور اس کا زیادہ رجحان کاروبار کی طرف تھا۔ اکثر کہتا تھا کہ عملی طور پر کاروبار سے پہلے کسی بڑی کمپنی میں ملازمت کر کے تربیت حاصل کروں گا اور پھر اپنا کاروبار شروع کروں گا۔طلحہ تنویر کے والد محمد تنویر کا کہنا تھا کہ طلحہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننا چاہتا تھا۔حادثے والے روز میں فلیٹ ہی میں تھا۔ بارش ہورہی تھی کہ طلحہ کے چھوٹے بھائی نے پیغام دیا کہ نیچے فیضان اور حمزہ بلا رہے ہیں۔ جس پر میں نے اس سے کہا کہ کدھر جارہے ہو، بارش ہو رہی ہے اور طلحہ نے جواب دیا کہ نیچے ہی ہیں۔چاہنے کے باوجود اس کو منع نہیں کرسکا اور تھوڑی دیر بعد حادثہ ہو گیا۔ ڈیفنس گارڈن کے رہائشی فرحان وزیر کے مطابق خیابان سحر کی 21ویں اسٹریٹ کے مذکورہ کھمبے کے پاس یہ پہلا حادثہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل دو مرتبہ اس پر شارٹ سرکٹ ہوچکا تھا، جس کی باقاعدہ شکایات بھی درج کرائی گئی تھیں۔فرحان وزیر کے مطابق بچپن سے لے کر موت تک تینوں کو لوگوں نے اکھٹے لڑتے، کھیلتے، امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے دیکھا۔ صبح ان کی لڑائی ہوتی شام کو تینوں پھر اکھٹے ہوتے۔ فرحان وزیر نے بتایا کہ وہ فلاح و بہبود کی غیر سرکاری تنظیم چلاتے ہیں، جس میں فیضان ان کے معاون ہوا کرتے تھے جبکہ طلحہ اور حمزہ بھی مدد کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’فیضان میرے زیادہ قریب ہوتا تھا۔ اس سے جب بھی مستقبل کے حوالے سے بات ہوتی تو وہ کہتا تھا کہ بس اتنا طے ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل نہیں ہوں گا جو غریب مرتے ہیں۔ میں کاروبار کروں گا، ملازمت کروں گا محنت کروں گا اور جب مروں گا تو غریب نہیں ہوں گا۔ہر سال جب 14 اگست آنے والا ہوتا تو یہ تینوں دوست کئی دن پہلے ہی تیاریاں شروع کر دیتے تھے۔فیضان شوق سے زیادہ ڈیوٹیاں لیتا تھا۔ پرچم، بیج وغیرہ پرنٹ کرواتا۔ پوری بلڈنگ کو پاکستان کے پرچموں سے سجاتے تھے۔ رات کو چراغاں کرتے، دن کوا سٹال لگاتے،جس میں پینٹنگ ہوتی تھیں، شام ہوتے ہی فنکشن منعقد کرتے تھے۔ اس سال یوم آزادی کے موقعے پر ڈیفنس گارڈن اپارٹمنٹ کو قومی پرچموں سے نہ سجایا جاسکا۔ ڈیفنس گارڈن اپارٹمنٹ کے مکینوں کے مطابق کئی سال بعد اس سال یہ پہلا موقع ہے کہ ان لوگوں نے 14 اگست کو اس طرح نہیں منایا جس طرح ہر سال مناتے ہیں۔اس کی وجہ حمزہ، طلحہ اور فیضان کی ناگہانی موت تھی کیونکہ 14اگست کے جشن کا انتظام کرنے والے موجود نہیں تھے۔طلحہ تنویر کے والد محمد تنویر بتاتے ہیں کہ پوری بلڈنگ میں جب بھی کسی کو مدد کی ضرورت پڑتی تو وہ ان دوستوں کو فون کرتا تھا۔

تازہ ترین