• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبیب احمد

بنارس پل سے نارتھ ناظم آباد کی طرف نشیب کی جانب آکر عبداللہ کالج کی چورنگی سے دائیں ہاتھ پر پاپوش نگر کا قبرستان ہے ۔ اس کے مقابل، بائیں ہاتھ پر پہاڑ گنج کا علاقہ شروع ہوتا ہے جو بنارس چورنگی سے شروع ہوکر یوتھ سینٹر، انٹرمیڈیٹ بورڈ آفس کی پشت پر پہاڑی بلندیوں اور ڈھلوانوں سے کٹی پہاڑی تک چلا گیا ہے، پہلے اس کی حدود شپ اونرز کالج تک پھیلی ہوئی تھیں، لیکن شارع نورجہاں نارتھ ناظم آباد سے قصبہ تک سڑک کی تعمیر کے لیے اس پہاڑی کو درمیان میں سے کاٹ دیا گیا، اس طرح یہ بستی نورجہاں تھانے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اس میں کئی چھوٹے چھوٹے محلے شامل ہیں، جن میں دیر کالونی، عمر فاروق کالونی نمبر، عثمان غنی کالونی، کرسچن کالونی شامل ہیں۔ یہ بستی تقریباً 30ہزار نفوس پر مشتمل ہے ،جس میں ہزارے وال، پختون، کوہستانی، بلتی، آفریدی، سرائیکی، پنجابی اور نشیبی علاقے میں اردو بولنے والے رہتےہیں۔ اصغر علی شاہ اسٹیڈیم اور گرڈ اسٹیشن چورنگی کے ساتھ عیسائی برادری کی خاصی بڑی آبادی واقع ہے جو پہاڑی کے دامن تک چلی گئی ہے۔ پہاڑ گنج کی کچی بستی کے تنگ و تاریک مکانات کےساتھ ڈی سلوا ٹاؤن اور نارتھ ناظم آباد کے وسیع و عریض بنگلے بھی واقع ہیں لیکن اس آبادی کا اپنا ایک انفرادی حسن ہے، بلندی پر تہہ در تہہ بنے ہوئےمکانات، پہاڑی پر جانے کے لیے پختہ سیڑھیاں، قصبہ کی جانب والی سڑک پر پہاڑ کا کٹاؤ پاکستان کے شمال میں واقع کسی علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔

اس کا شمار بھی کراچی کی نصف صدی پرانی بستیوں میں ہوتا ہے۔ ایک سیمنٹ فیکٹری نے جب قصبہ بنارس کے پہاڑوں کو کاٹ کر چٹانی پتھروں سے سیمنٹ بنانے کا کام شروع کیا تو، یہاں کوہستان کے تریالی زبان بولنے والےلوگ آکربس گئے ، جو خرکار تھے اورجن کا پیشہ ہی پہاڑوں کو توڑنا تھا۔ انہیں مذکورہ سیمنٹ فیکٹری میں روزگار مل گیا۔ وہ چٹانوں کو کاٹتے، پہاڑی پتھر مذکورہ فیکٹر ی کے حوالے کردیتے اور جگہ ہموار کرکے پتھر اور مٹی کے کچے گھر بنا نے کے بعد، ان پر لکڑی اور چٹائیوں سے چھت بنا کر ان میں رہائش اختیار کرتے۔یہ جفاکش لوگ اس پہاڑی بستی کے بانیوں میں سے ہیں۔1966-67تک یہاں کوہستان سے آنے والے صرف 22 خاندان آباد تھے اور اس وقت اس بستی کو ’’بہادر آباد‘‘کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بعد ازاں جب صوبہ سرحد سے مختلف قبائل اور برادریاں یہاں آکر آباد ہوتے گئے اور اس کی آبادی بڑھنے لگی تو پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ’’پہاڑ گنج‘‘ تجویز کیا گیا۔ یہاں پر شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کے علاوہ پنجاب اور سندھ کےعلاوہ اردو بولنے والوں کی بھی خاصی تعدادرہتی ہے، تربیلا ڈیم کے متاثرین کی اکثریت بھی یہاں آباد ہوگئی ہے۔یہاں زیادہ تر مزدوریا قریبی گیراجوں پر کام کرنے والے لوگ رہتے ہیں جن کے ذرائع آمدنی محدود ہیں۔ اس بستی میں مختلف مذاہب کے باسی رہائش پذیرہیں اور یہاں ایک درجن گرجا گھر، امام بارگاہ اور مختلف مکاتب فکر کی 21 مساجد موجود ہیں۔ مختلف النوع قومیتوں اور بین الذاہب لوگوں کی آبادی ہونے کے باوجود اس علاقے میں گز شتہ پانچ عشروں کے دوران کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایک سرکاری اسکول ہے،پہاڑی پر کئی نجی کلینکس ہیں، جب کہ شمالی علاقہ جات کے مشہور پکوانوں کے کئی ہوٹل بھی وہاں واقع ہیں۔ کچی بستی کے ساتھ ہموار سڑکیں ہیں۔ عبداللہ کالج سے نصرت بھٹو کالونی تک دو رویہ کشادہ سڑک ہے جس کے دونوں اطراف کشادہ بنگلے بنے ہوئے ہیں۔ پہاڑی کے نشیب میں یوتھ سینٹر کا مشہور کھیل کا میدان واقع ہے جہاں آبادی کے بچے اور نوجوان فٹ بال اور کرکٹ سمیت مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ گرڈ اسٹیشن چورنگی کے بائیں جانب اصغر علی شاہ اسٹیڈیم واقع ہے، جہاں ملکی سطح پر کرکٹ میچوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ انٹر بورڈ آفس کے بعدہر سو گز کے فاصلے پر پختہ سڑک بنگلوں کے ساتھ ساتھ اس کچی آبادی تک جاتی ہے ، جہاں سے لوگ پگڈنڈیوں اور پتھریلی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے 2000فٹ کی بلندی پر بنی ہوئی اپنی رہائش گاہوں تک جاتے ہیں۔ پہاڑ پر بنی اس بستی کو بھی گوناگوں مسائل کا سامنا ہے ۔ اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا ہے۔ گرڈ اسٹیشن چند قدم کے فاصلے پر ہونے کے باوجود یہاں بجلی کا شدید بحران رہتا ہے ۔کراچی کے سابق میئر نے لوگوں کے اس مسئلے کو محسوس کرتےہوئے ڈی سلوا ٹاؤن میں واٹر بورڈ کا ایک پمپنگ اسٹیشن بنوا دیا تھا، نیچے کے علاقے میں سڑک پر نلکے اور برمے لگوا دیئے تھے لیکن چند سالوں سے یہاں پر پانی کا شدید بحران ہے۔ دوسرا مسئلہ غلاظت اور گندے پانی کا ہے۔ نشیبی علاقوں کے مکانات کے ساتھ گندے پانی کے جوہڑ بنے ہوئے ہیں۔ پہاڑی پر بھی گٹر لائنیں بند رہتی ہیں، ان کی صفائی کا معقول انتظام نہیں ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گٹروں سے ابل کر بہنے والا پانی نیچے کی جانب رخ کرتا ہے، لوگوں کو پہاڑی راستوں پر چلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ پتلی پتلی گلیاں ، جن میں نہ صرف گاڑیوں کا اوپر کے علاقوں میں جانے کا تصور محال ہے بلکہ مریض یا انتقال کی صورت میں میت کو بھی اوپر سے نیچے تک لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلندی پرتجاوزات مافیا سرگرم ہے، یہ لوگ مکانات بنا کر ضرورت مندوں کو کرائے پردیتے ہیں جو شہر کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت سستے کرائے کے پیش نظر یہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس رجحان کی وجہ سے آبادی چوٹی تک جا پہنچی ہے۔ کچرا کنڈی نہ ہونے کی وجہ سے تنگ گلیوں میں کچرے کےانبار لگے رہتے ہیں۔

وسیع و عریض چورنگی اور گرڈ اسٹیشن کی دیوار کچرا خانہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے برابر ایک معروف اسٹیڈیم واقع ہے، جس کا داخلی دروازہ اس ’’غیر منظور شدہ ‘‘ کچرا کنڈی کے ساتھ ہے اور یہاں اکثر بین الاقوامی نوعیت کے کرکٹ میچز ہوتے ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے ملک کی اہم شخصیات بھی آتی ہیں، لیکن غلاظت کے انبار کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ گٹر لائنیں بوسیدہ اور شکستہ ہیں جن کی وجہ سے پانی گھروں کا گندہ پانی گلیوں اور مکانات کےگرد جمع رہتا ہے ۔ بارشوں میں پہاڑیوں پر سے بہہ کر آنے والے پانی کی وجہ سے نشیب میں بنے مکانات زیرآب آجاتے ہیں۔ پا۔ پورے علاقے میں کہیں بھی اسٹریٹ لائٹ نہیں ہے۔

 یہ بستی بغیر کسی منصوبہ بندی کے وجود میں آئی جس کی وجہ سے شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے ایک اسکول ہے، لیکن وہ بھی پرائمری تک۔ لوگوں کے تحفظ کے لیے اس کے اطراف پانچ فٹ اونچی دیواریں کھڑی کی گئیں لیکن آج یہ دیواریں ٹوٹ پھوٹ گئ ہیں جب کہ لوگ اپنے گھروں کا کچرا اس میں پھینکتے ہیں ، جس کی وجہ سے برسات کے زمانے میں بہاؤ رکنے کی وجہ سے پانی ابل کر اطراف کے گھروں میں داخل ہوجاتا ہے پروگرام رکھا گیا اس پہاڑی پر تہہ در تہہ مکانات بنے ہوئے ہیں۔ علاقے میں پانی کا بحران شدید ہے، فراہمی آب ڈی سلوا ٹاؤن اور نارتھ ناظم آباد کے مختلف بلاکس تک ہوتی ہے جب کہ اس سے متصل علاقہ فراہمی آب سے محروم رہتا ہے۔ یہاں قبضہ مافیا سرگرم ہے، پہاڑ گنج چورنگی کے ساتھ دو کھیل کے میدان تھے، ان میں سے ایک پر گرڈ اسٹیشن بنا دیا گیا، جب کہ دوسرے میدان پر بااثر لوگوں نے قبضہ کرکے مکانات، پلازے اور دیگر عمارتیں تعمیر کر لی ہیں۔

تازہ ترین