• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبرداد خان
پاکستان کا اہم ترین معاملہ (کشمیر) طویل عرصہ بعد اقوام متحدہ کے سردخانے سے نکل کر سیکورٹی کونسل کی میز پر آگیا ہے تاکہ یہ غیرمنجمد ہوکر ایک دفعہ پھر اپنی منزل کی طرف رواں ہوجائے اور کشمیریوں کو حق ارادیت مل سکے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور کشمیریوں کی کمزور سیاسی اور عسکری سفارتکاری اس مسئلہ پر ماضی میں آج جیسا ماحول نہیں بناسکی، حکومت کی اس کامیاب کوشش کو کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہئے تھا جو حزب اختلاف کی اہم جماعتوں نے نہیں کیا۔ ویسے تو حزب اختلاف کی ہر جماعت مسئلہ کشمیر پر تمام کچھ کردینے کی تلقین کرتی ہے۔ مگر اہم ترین مواقع پر جیسا کہ حالیہ بھارتی اقدام تھا پر حکومت کی کھل کر حمایت میں آگے نہ آنا مایوس کن ہے۔ حقیقت میں کیونکہ پی پی اور (ن) زیادہ عرصہ اقتدار میں رہی ہیں ملکی اور بین الاقوامی اداروں میں اہم معاملات کس طرح ہینڈل ہوتے ہیں انکے پاس سابق ڈپلومیٹس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ڈپلومیٹس علم کے ایک بڑے ذخیرہ پر بیٹھی ہیں اس لئے ان کیلئے حکومت کو تعاون فراہم کرنا حزب اختلاف کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہ ایک قومی ایشو ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ حکومت سفارتکاری کے اس خزانہ سے براہ راست مستفید ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریگی۔ حکومت کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ سفارتکاری میں مائنس پی ٹی آئی دور کے ہم کچھ حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ اب اگر50برس کے بعد کوئی UNاجلاس ہونا ہے تو بھلے نہ ہو۔ بھارتی جبر اور قید وبند کی تلخ حقیقتیں دنیا بھر پر واضح ہوچکی ہیں۔ پیلٹ گنز کا استعمال اور 24گھنٹوں کے کرفیوز سے پیداشدہ مشکلات دنیا بر پر واضح ہوچکی ہیں۔ پچھلے کئی ماہ کی اس طویل جدوجہد نے اس تحریک کو اس جگہ پہنچا دیا ہے جہاں آج ہے۔ باہمی مذاکرات کی تاریخ بھی انتہائی مایوس کن ہے اور ایک اہم وجہ ہے کہ ایشو بین الاقوامی قراردادوں کی لپیٹ میں نہیں آسکا۔ تحریک بھی ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے مرحلہ پر ہے، عرب دنیا اپنے تجارتی مفادات کی خاطر ہمیں خاطر خواہ مدد نہیں دے رہی۔ حکومت کو سفارتی محاذ پر کام جاری رکھنا چاہئے اور کشمیریوں کی نسل کشی سے جان خلاصی کی خاطر ایک روایتی جنگ کے آپشن کو بھی زیرغور رکھنا چاہئے۔ کامیابی کیلئے یہ دونوں آپشنز لازم و ملزوم ہیں حکومت مسئلہ کشمیر پر ماہرین پر مشتمل وفود دنیا بھر کے دارالخلافوں میں جلدازجلد روانہ کرے۔ ایسے ماہرین خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں کو ان وفود کا حصہ بنانا ریاست کے اچھے فیصلوں میں سے ایک ہوگا (ماضی میں ایسے وفود میں سیاسی بنیادوں پر ایسے لوگ شامل کئے گئے جنہیں ایشو پر عبور نہ تھا)۔ اگر ملک کوکسی روایتی جنگ میں اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے تو ابتدائی مراحل ہی میں اقوام متحدہ اور دوست ممالک کو صورت حال سے
جوڑ دیا جائے تاکہ جنگ کو کنٹرول کیا جاسکے۔ قیادت چاہے گی کہ جنگ مختصر اور موثر رہے۔ پاکستان نے امریکہ اور دوسروں کی مدد سے 27فروری کے گرد بھارتی جارحیت کا نہ صرف جواب دیا بلکہ مسلط کی گئی ایک جنگ کو ٹال دیا۔ موجودہ صورتحال جو اس وقت سے زیادہ مختلف نہیں میں بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ Hot Linesکھلی رہنی چاہیں۔ محترم وزیرخارجہ کا موجودہ صورتحال پر یہ کہنا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو سیکورٹی کونسل میں اٹھا دیا ہے۔ اب اسے حل کرنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے اپنی جگہ درست۔ یقیناً پاکستان جنگ بھی نہیں چاہتا اور ایک UNاجلاس کے بعد دوسرے اجلاس کیلئے مزید پچاس سال انتظار بھی نہیں کرسکتا۔ یواین بھی صرف طاقتوروں کیلئے ہی جلد اقدام اٹھاتی ہے۔ حکومت متحرک سفارتکاری کے ذریعہ اس ایشوز پر سیکورٹی کونسل سے کشمیر پر ایک فوری ’’کمیشن‘‘ بنانے پر زور دیتی رہے، جو اس مسئلہ کو تمام حوالوں سے دیکھے۔ ہزاروں زیرحراست لوگوں بالخصوص خواتین سے جڑے معاملات، مذہبی اور سیاسی ایکٹوٹیز کے حوالہ سے پابندیاں ایسے وہ تمام معاملات ہیں۔ جو اس مسئلہ کے کسی حتمی حل سے جڑے ہوئے ہیں اور ان پر پیش رفت مسئلہ کے حتمی حل میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ توقع ہے خان صاحب کی کفایت شعار حکومت اہم مشنز میں ایسے مزید ماہرین متعین کرنے میں کنجوسی نہیں دکھائے گی جو کشمیر کا حل ڈھونڈنے میں مددگار ثابت ہوسکتےہوں۔ حکومتی پالیسی میں مسلح افواج کی INPUTاپنی جگہ۔ توقع کی جاتی ہے کہ سابق جرنیل حضرات جو اپنی جگہ علم کا ایک انبارہیں سے بھی صورتحال پر مشوروں کا چینل موجود ہوگا۔ ایسے تمام چینلز کی سوچوں سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ کیونکہ مسئلہ اتنی دیر کھٹائی میں پڑا رہا ہے۔ تمام معاملات ایڈہاک بنیادوں پر چلتے رہے ہیں اسلئے یہ کہنا کہ آج مسئلہ کشمیر پر کوئی قومی بیانیہ موجود نہیں قطعی طور پر درست ہے۔ یواین قراردادوں کی بھی ایک محدود اہمیت ہے آج ملک کو کشمیر کے علاوہ اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا بھی ہے۔ 370ختم کرنے کے بعد بھارت پاکستان کو میدان جنگ میں کھینچ لایا ہے۔ پاکستان کی سرحدی بائونڈریز بھی تبدیل ہونے کے حقیقی خدشات ہیں۔آج نہ ہی آزاد کشمیر محفوظ ہے اور نہ ہی پاکستان، بھارت اپنے آئین کی شق 370ختم کرکے آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ بناچکا ہے۔ اب وہ دنیا یہ باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ آزاد کشمیر آزاد نہیں بلکہ بھارتی جمہوریہ کا حصہ ہے اور وہاں پر پاکستان کا عمل دخل غیرآئینی ہے۔ لہذا اسے بیدخل کیا جائے ملک کو بیرونی حملہ کا بھی خطرہ ہے۔ تحریک آزادی بھی اپنے عروج پر ہے۔ پارلیمانی حزب اختلاف بھی حکومت کے ساتھ نہیں کھڑی بلکہ احتجاجی جلسے جلوسوں سے ملک کو غیرمستحکم کررہی ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو نہایت اہم فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ تاہم حوصلہ افزا وہ عوامی اتحاد ہے جو ملک کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے ملک کو درپیش چیلنجز سے حکومت کس طرح نمٹتی ہے؟ مستقبل طویل تک ملک کی قسمت کا فیصلہ کردیگی۔ اللہ مملکت پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین