• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹاک ہوم کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن کی تحقیق کے مطابق 2017میں فوج پر ہونے والے اخراجات ایک ہزار سات سو انتالیس بلین ڈالر ہیں اور جس میں صرف امریکہ نے ہی چھ سو دس بلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017یا اس سے تھوڑا پہلے اس رقم کا زیادہ حصہ تیسری دنیا کے ممالک پر خرچ ہوا جس میں خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ اور بھارت شامل ہیں۔ جنگ پر فی کس آنے والا خرچ 230ڈالر ہے۔ یہ 230ڈالر کا خرچ جو دنیاکے ہر شخص کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس سے تیسری دنیا کے ہر شخص کو صحت کی انشورنس، ٹرانسپورٹیشن کی سہولت اور تعلیم کی سہولت مہیا کی جا سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو تیسری دنیا کے ممالک میں فوج پر ہونے والے اخراجات بڑھ رہے ہیں جبکہ یورپ اور ایٹلانٹک ممالک کے فوجی اخراجات کے اخراجات میں کمی آ رہی ہے مگر دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگی سامان کی پروڈکشن پہلی دنیا کے ممالک میں ہو رہی ہے اور وہ اپنے جنگی سامان کی فروخت کے لئے تیسری دنیا کے ممالک کو ہمیشہ سے استعمال کرتے آئے اور ان میں مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ 2018میں فوج پر ہونے والے اخراجات ایک ہزار آٹھ سو بائیس بلین ڈالر ہیں جس میں چین، بھارت، سعودی عرب، امریکہ اور فرانس مل کر اس کا ساٹھ فیصد خرچ کرتے ہیں۔ بھارت اس مد میں 66.5بلین ڈالر جبکہ پاکستان 11.4بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ہمارے خطے میں آج مسائل کی سب سی بڑی وجہ نو آبادیاتی استعمار کے چھوڑے ہوئے مسائل ہیں اور کشمیر کا مسئلہ بھی نو آبادیاتی دور کی غمازی کرتا ہے۔ نو آبادیاتی دور میں برطانیہ نے بھارت پر قبضہ کیا اور بھارت کے تمام وسائل پر قابض ہونے کے بعد اس نے یہ وسائل برطانیہ منتقل کر دیئے۔ برطانیہ کی صنعت کو انہی وسائل کی مدد سے ترقی دی لیکن جب برطانیہ بھارت کو چھوڑنے لگا تو بجائے اس کے کہ وہ بھارت کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے بعد باہمی رضا مندی سے اس خطے کے تمام مسائل حل کر کے جاتا وہ مسائل کو ادھورا چھوڑ کر ہی یہاں سے چلا گیا۔ ایک طرف تو نو آبادیاتی طاقت نے بھارت پر قبضہ کر کے بھارت کو صنعتی ملک سے خام مال پیدا کرنے والا ملک بنا دیا یہاں کے وسائل سارے کے سارے یورپ منتقل کر دیئے جس سے وہاں بڑی تعداد میں صنعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ دوسری طرف بھارت میں نہ ختم ہونے والے مسائل کا سلسلہ چھوڑ کر چلا گیا۔ یاد رہے کہ نو آبادیاتی دور سے پہلے ہندو، مسلم کشمکش کا تاریخ میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا، ہاں چھوٹی موٹی کدورتیں ضرور موجود رہی ہوں گی لیکن جس طرح کی نفرت آج بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں تھا اور یہ تمام نو آبادیاتی دور کا ہی تسلسل ہے اور اب وہی نو آبادیاتی طاقتیں جو دنیا میں جنگی اخراجات کی مد میں 18سو بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کر رہی ہیں وہ اپنے جنگی آلات مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں بیچ رہی ہیں۔

آج کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت میں تنائو عروج پر ہے اور وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ وہ مودی کے فسطائیت سے بھرپور اور نفرت انگیز رویے کی بنا پر اب بھارتی حکومت سے بات چیت کا سلسلہ بند کر رہے ہیں۔ آج مودی کے نفرت انگیز رویے کی بنا پر پوری دنیا میں اس کا منفی چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ پاکستان نے کچھ عرصے سے مختلف عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کئے ہیں لیکن بھارت کے حالیہ اقدام سے یہ تنظیمیں اپنے کارکنوں کو سرگرم کر سکتی ہیں۔ پاکستانی حکومت کو ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔

آزادی کی تحریکوں کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے بشرطیکہ آزادی کی تحریک مقامی طور پر لڑی جائے۔ اس حقیقی تحریک کو پوری دنیا کی آواز سے تقویت پہنچے گی اور ایک دن بھارت کی فسطائی ریاست کشمیریوں کو ان کا حق دینے پر مجبور ہوگی۔

پاکستان کو چاہئے کہ وہ بھارتی فسطائیت کو پوری دنیا میں بے نقاب کرے اور اپنے آپ کو امن کے خواہاں کے طور پر پیش کرے کیونکہ نفرتوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے، مسائل کا حل بالآخر بات چیت ہی سے ممکن ہے۔ موجودہ حالات میں جہاں پاکستان کو مودی فسطائیت سے نبردآزما ہونا ہے وہیں نو آبادیاتی دور کی زیادتیوں اور جدید سامراجیت کے ہتھکنڈوں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی حکمت عملی بنانا ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اپنا موقف مضبوط کیا جائے، مودی کی فسطائی پالیسیوں کو دنیا کے سامنے آشکار کیا جائے، حزب اختلاف کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر پورے سماج کو ایک نکتے پر منظم کیا جائے اور ہر صورت میں جنگ سے اجتناب کیا جائے۔ اگرچہ آج بھارت کا رویہ نہایت مایوس کن ہے اور نفرت و فسطائیت وہاں عروج پر ہے۔ اسی لاکھ کشمیری بھارتی جارحیت کا شکار ہیں، وزیراعظم عمران خان کے مطابق کشمیری عوام کی نسل کشی کا شدید خطرہ ہے مگر ہمیں بجائے مایوس ہونے کے یا نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے، امن کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔ امن کی شمع کو اس یقین کے ساتھ روشن کرنا ہوگا کہ اس خطے کے ڈیڑھ ارب عوام کے محفوظ مستقبل کی ضمانت اسی امن میں مضمر ہے کیونکہ جنگ اس خطے کے عوام کے لئے کسی خوفناک عذاب سے کم نہیں ہوگی کہ اردو کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے کہا تھا!

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

تازہ ترین