دوسرے بیٹے کی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد کی بات ہے۔ میری چھوٹی بہن نے بتایا کہ بھائی جان (میرے میاں) آرہے ہیں۔ اسے اسپتال کے کمرے کی کھڑکی سے مین گیٹ نظر آگیا تھا۔ میں جلدی سے تکیے پر اونچی ہو گئی۔ آئینے میں صورت دیکھ کر ہونٹوں پر لپ اسٹک کی تہہ جماہی رہی تھی کہ ہمارے قریب بیٹھی ہماری ایک عزیزہ خفا ہو کر بولیں ”ارے آرام سے لیٹی رہو،کچھ اسے بھی تو احساس ہو کہ بچہ پیدا کرنا کتنا مشکل کام ہے“۔ میں نے حیرت سے ان کی صورت دیکھی ۔ بھلا کون نہیں جانتا کہ تخلیق کے مرحلے سے گزرنا کتنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے لئے اشتہار لگانا کیا ضروری ہے۔ ان محترمہ سے تو میں نے کچھ نہیں کہا لیکن مجھے یہ سوچ کر ہنسی ضرور آگئی کہ زیادہ تر خواتین کا زندگی کے بارے میں یہی رویہ ہے یعنی وہ اپنی تکلیف اور بیماری کا (خیر بچہ پیدا کرنا تو بیماری کے زمرے میں نہیں آئے گا) ڈھنڈورا پیٹنا بے حد ضروری سمجھتی ہیں۔ اپنے ملنے جلنے والوں سے، عزیزوں، رشتہ داروں، گھر کے مردوں اور خصوصی طور پر شوہر حضرات کے سامنے اپنے خرابیٴ صحت اور جسمانی تکلیفوں کا بیان بہت تفصیل سے کیا جاتا ہے یعنی کہیں دوسرے انہیں مکمل طور پر صحت مند اور فٹ نہ سمجھ لیں اور اس حوالے سے کہیں ان سے بہتر کارکردگی کی توقع نہ کر لیں یا کم ازکم یہ ضرور احساس کریں کہ بیچاری بیوی اتنی جسمانی تکلیفوں کے باوجود کس مستعدی سے ان کی اور دوسرے کنبے والوں کی خدمت بجالاتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی خواتین کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ خود کو قابل رحم یا MISERABLE بنا کر پیش کر رہی ہیں بلکہ وہ خود کو اپنے اس رویّے میں اس لحاظ سے حق بجانب سمجھتی ہیں کہ آخر حقیقت کے بیان میں برائی کیا ہے؟ اپنے کالج کے زمانے کی ایک دوست کو میں نے ایک بار ٹوک ہی دیا تھا کہ بھئی مجھے معلوم ہے تمہارے سر میں اکثر درد رہتا ہے اور تمہاری ٹانگیں بھی روز ہی درد کرتی ہیں تو پھر ہر بار نئے سرے سے ان تکالیف کا اتنی تفصیل سے ذکر کرنے کا فائدہ؟ وہ سچ مچ ناراض ہوگئی کہ لو بھئی اگر تم سے بھی ذکر نہ کروں تو کس سے کروں؟ انسان آخر اپنوں سے ہی تو اپنی تکلیف بیان کرتا ہے؟ اب میں اسے کیا بتاتی کہ تمہاری یہ اپنی پیاری دوست روز گفتگو شروع ہونے سے پہلے تمہارا ہیلتھ بلیٹن سن سن کر تنگ آچکی ہے!
میں نے صرف خواتین کا ذکر کیا ہے بہت سے مرد حضرات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں یعنی جنہیں اپنی اور اپنے خاندان کی جسمانی تکلیفوں اور بیماریوں کا تفصیلی ذکر کرنے میں خاص لطف آتا ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے تھے ان سے ٹیلیفون پر یا ملاقات کے وقت خیر خیریت پوچھ لینا مصیبت ہو جاتی تھی۔ اپنی ہر طرح کی بیماریوں اور پورے کنبے کی خرابیٴ صحت کی تفصیلی رپورٹ دینا گویا ان پر واجب ہو جاتا تھا۔ اب آپ لاکھ موضوع بدلنا چاہیں، ان کی بات کاٹ کر کوئی دوسری بات شروع کر دیں، وہ ہر بار پھر سے اپنے پرانے موضوع پر لوٹ آتے تھے گویا انہیں اس سے خاص لطف حاصل ہو رہا ہو۔
چھوٹی موٹی بیماریاں اور جسمانی تکلیفیں سب کے ساتھ لگی ہیں خدا بڑی پریشانیوں سے سب کو محفوظ رکھے لیکن روزمرہ کی تکلیفوں اور بیماریوں کا ذکر اور وہ بھی بار بار گویا اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کی برابر ہے۔ سوچیں تو اس مختصر سی زندگی میں خوشیوں اور مسکراہٹوں کے لمحے ویسے بھی کم ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی اگرآپ اپنی تکلیفوں اور بیماریوں کا ذکر کرتے رہیں تو پھر سکون اور چین کا سانس لینے کے لئے کتنا وقت بچتا ہے؟ اس سارے قصے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی دوسرا آپ کی تکلیف نہ کم کر سکتا ہے نہ اس میں شریک ہو سکتا ہے، بقول شاعر
اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن اپنا
کہ جب تک سانس رہتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا
پتہ نہیں یہ کس کا شعر ہے(اگر آپ کو پتہ ہوتو ضروری بتائیے گا) لیکن ہے بڑا برمحل۔
اور سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی لاکھ چاہے بھی توآپ کی تکلیف میں حصے دار نہیں بن سکتا پھر اپنا اور دوسروں کا وہ وقت جو اچھی گپ شپ میں گزر سکتا ہے، اسے ضائع کیوں کیا جائے؟ مجھے وہ لوگ بہت اچھے لگتے ہیں جو کچھ عمر کے تقاضوں اور کچھ خرابیٴ صحت کے باعث اپنا زیادہ تر وقت بستر پر لیٹے ہوئے گزارتے ہیں لیکن خیر خیریت پوچھو تو کھنکتی ہوئی آواز سے جواب ملتا ہے اور ہر صورت میں تان شکر خدا پر ٹوٹتی ہے حالانکہ ان کے پاس اپنی خرابیٴ صحت اور معذوری کی حد تک جسمانی کمزوری کا جواز ہوتا ہے کہ وہ روتی ہوئی آواز میں اپنی تکلیفیں بیان کریں لیکن اس کا حاصل کیا ہو، یہی نا کہ آئندہ خیریت پوچھنے والا محتاط ہو جائے گا اور کم کم ہی یہ زحمت کرے گا۔
میں مانتی ہوں کہ عزیزوں، دوستوں اور محبت کرنے والوں سے اپنی تکلیفیں اور بیماری شیئر کرنا بھی ایک حد تک ضروری ہوتا ہے لیکن صرف اس حد تک جہاں تک معلومات پہنچانا ضروری ہو تاکہ کسی کو بعد میں گلہ نہ رہے لیکن روزمرہ کی گفتگو میں ابتدا اور آخر بھی بیماری کا ذکرنہیں ہونا چاہئے اسی طرح ایک اور ضروری مسئلہ بھی ہے ایک ڈاکٹر اگر وہ آپ کا کوئی قریبی عزیز بھی ہے تو بھی آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہر ملاقات میں آپ اپنی کوئی نہ کوئی تکلیف بیان کرنے بیٹھ جائیں، اس غریب کی بھی آخر اپنی کوئی زندگی ہے وہ چاہے مروت اور شرافت میں اس کا اظہار نہ بھی کرے تو بھی عام سوشل زندگی میں وہ چند لمحے بیماریوں کے ذکر کے بغیر بھی گزارنا چاہتا ہے۔ آپ بھی کوشش کر کے اپنی بیماریوں کو ذہن کے پچھلے خانے میں دھکیل دیں۔ یقین کریں اس شعوری کوشش سے بیماریاں بھی یقینا آپ کو بھول جائیں گی، آزماکر دیکھ لیں۔ اس کے علاوہ بھی ایک نسخہ ہے، چھوٹی موٹی تکلیفوں سے نجات حاصل کرنے کا۔ یہ نسخہ میرے پیارے بھائی ڈاکٹر روشن (مرحوم) نے تجویز کیا تھا میں پتہ نہیں اپنی کن کن تکلیفوں کا ذکر کر رہی تھی۔ وہ کافی دیر تک توجہ سے سنتے رہے اور آپ یقین جانیئے ان سے بہتر سامع میں نے آج تک نہیں دیکھا، بہرحال جب میں ساری بیماریاں بیان کر چکی تو بہت اطمینان سے جواب آیا کہ ”آپ کوئی باقاعدہ کام شروع کر دیں“۔ ”جی“ میں نے حیرت سے ان کی صورت دیکھی ”سچ کہتا ہوں ، جب آپ مصروف ہو جائیں گی تو یہ ساری چھوٹی موٹی تکلیفیں آپ کو یاد بھی نہیں رہیں گی“۔ یقین مانیں ان کے اس مشورے کو میں نے سو فیصد درست پایا ہے۔