• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشہور کہاوت ہے، دودھ کا جلا چھاچھہ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، البتہ پاکستان کرکٹ کی اگر بات کی جائے تو افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ماضی اور حال کے کئی ایسے معاملات ہیں جو آج بھی پی سی بی کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں۔

2010ء میں بدنام زمانہ ’اسپاٹ فکسنگ‘ اسکینڈل کے تین کرداروں میں سے ایک فاسٹ بولر محمد عامر نے جب پانچ سال کی پابندی ختم کی، تو پی سی بی کے سابق سربراہ نجم عزیز سیٹھی نے محمد عامر کی سزا ختم ہونے کے فوراً بعد انہیں بین الاقوامی کرکٹ کے دھارے میں لانے کے لیے لاکھوں ڈالر غیر ملکی وکلاء کی فیس میں محض اس لیے خرچ کر ڈالے کہ آئی سی سی سے اس حوالے سے رجوع کرنا مناسب فیصلہ بھی ہوگا، یا نہیں ؟

15جنوری 2016ء کو آکلینڈ میں ٹی 20 میں شرکت کے ساتھ محمد عامر نے بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی، تاہم پانچ سال کی پابندی کے بعد محمد عامر کو پی سی بی میں لاڈلے کی طرح سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، انہیں اوسط پرفارمینس کے باوجود تینوں فارمیٹ میں کھلایا جاتا رہا۔

اگرچہ ورلڈ کپ 2019ء میں محمد عامر کی پرفارمینس شاندار رہی جہاں 8میچ کھیل کر انہوں نے 17وکٹیں حاصل کیں، تاہم دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ورلڈ کپ سے قبل 25 میچ کھیلنے والے بائیں ہاتھ کے تیز بولر محض 18وکٹ ہی لے سکے تھے، ون ڈے کرکٹ کی نسبت ٹیسٹ کرکٹ میں محمد عامر کی پرفارمینس توقعات کے برعکس ثابت ہوئی۔

پانچ سال کی پابندی سے پہلے محمد عامر نے 5ٹیسٹ سیریز میں 51 کھلاڑی آوٹ کیے جبکہ پابندی کے بعد 9 ٹیسٹ سیریز میں محمد عامر نے 22ٹیسٹ کے دوران 68وکٹیں حاصل کیں۔

گزشتہ سال دورہ جنوبی افریقا میں 3 ٹیسٹ کے دوران محمد عامر نے 58.23 کی اوسط سے 12وکٹیں حاصل کیں، تاہم ورلڈ کپ کے بعد جہاں محمد عامر کی فارم میں واپسی پر سب خوش تھے، 27 سالہ فاسٹ بولر نے 26جولائی کو ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔

محمد عامر کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ پر اس لیے بھی سوال اُٹھے کہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ میں قومی ٹیم دیگر ٹیسٹ ٹیموں کے ساتھ شرکت کر رہی تھی، تاہم محمد عامر کا موقف تھا کہ وہ ’لال گیند سے کرکٹ چھوڑ کر مختصر دورانئیے کی کرکٹ میں پاکستان کی خدمت طویل عرصے کرنے کے خواہش مند ہیں۔‘

محمد عامر کے اس فیصلے پر سابق کرکٹرز نے سخت تنقید کی۔ چوں کہ یہ محمد عامر کا ذاتی فیصلہ تھا، لہذا اس پر کیا بات ہو سکتی تھی؟ ماسوائے اس کے کہ محمد عامر کو پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا؟ اُدھر ورلڈ کپ کے بعد محمد عامر ٹی 20اور مختصر دورانئیے کی کرکٹ کھیلنے انگلینڈ ہی میں رک گئے، جہاں انہوں نے ایسیکس کی نمائندگی کی۔

26جولائی کو ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے والے محمد عامر نے 18سے 20اگست تک ایسیکس کے لیے کاؤنٹی ڈویژن ’ون‘ میں کینٹ کے خلاف میچ کھیل کر نیا سوال اُٹھا دیا؟ یقیناً ایسیکس کاؤنٹی محمد عامر کے اس اقدام کی شکر گزار ہے، جنہوں نے ایشیز سیریز میں شرکت کے باعث پیٹر سڈل کے متبادل کے طور پر محمد عامر کو کھلایا، جنھوں نے پہلی اننگز میں چار اور دوسری اننگز میں دو کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔

یہ میچ کھیلنے کے محمد عامر کو ایسیکس کاؤنٹی نے 20لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم دی، جس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمد عامر ٹیسٹ کرکٹ پاکستان کے لیے نہیں کھیل سکتے تو انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد ایسیکس کے لیے کینٹ کاؤنٹی کے لیے کیا صرف پیسے کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی؟

پیسے کے لالچ کے سبب بین الاقوامی کرکٹ سے محمد عامر کے کیرئیر کے 5 قیمتی سال برباد ہوئے،تاہم اب جب ملک کو محمد عامر کی بولنگ کی ضرورت ہے، تو فاسٹ بولر نے محدود اوورز کی کرکٹ جہاں پیسہ زیادہ ہےکی نسبت ٹیسٹ کرکٹ جہاں پیسہ کم اور وقت زیادہ درکار ہے، علیحدگی اختیار کر لی۔

وہی محمد عامر جو ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ چکے ہیں انہوں نے کیا پیسے کی خاطر ایسیکس کے لیے فرسٹ ڈویژن میچ کھیلا،اس کا جواب تو فاسٹ بولر ہی دے سکتے ہیں؟

تازہ ترین