پاکستان کا سوشل میڈیا اتنا فاسٹ ہے کہ کئی اہم خبریں جو ابھی وقوع پذیر بھی نہیں ہوئی ہوتیں وہ سوشل میڈیا پر پہلے لگ جاتی ہیں ۔ مثلاً ممتاز قادری کی پھانسی کی خبراور پھر پرویز مشرف کے دبئی روانہ ہونے کی خبر ۔سابق صدرپرویز مشرف کا علاج کی آڑ میں ملک سے باہر نکلنے سے سیاسی حلقوں میں نئی بحث کا سلسلہ چل نکلا ہے۔اور یہ بھی کہ وہ واپس پاکستان اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرتے ہیں یا نہیں ۔بہرحال ان کا واپس آنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ماہرقانون عاصمہ جہانگیر کا یہ کہنا ہے کہ حکومت نے فراخدلی کا مظاہرہ کرکے ایک اچھا پیغام دیا ہے۔ بیشک! حالانکہ پرویز مشرف اکتوبر 1999 میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر خود برسراقتدار آ گئے تھے اور نواز شریف سے دس سال وطن واپس نہ آنے کا تحریر ی معاہدہ کرکے انہیں ملک بدر کردیاتھا جسکی بدولت نواز شریف نے سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزاری۔یہاں تک کہ نواز شریف اپنے باپ کے جنازے تک میں شامل نہ ہوسکے ۔اور ایک دفعہ جب انہوں نے پاکستان آنے کی کوشش کی تو انہیں ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔جنرل پرویز مشرف 2008 میں مطلق العنان آمر کی حیثیت سے پاکستان کے حکمران رہے اور انہوں نے شریف فیملی کے ساتھ جوکیا تھا ۔ اس کے بدلے میں وہ مشرف کے ساتھ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہ کرکے اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیکر یقیناً فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج پیپلز پارٹی حکومت پر کڑی نقطہ چینی کر رہی ہے۔جبکہ خود پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ اقتدار میں جنرل صاحب کو گارڈ آ ُف آنر پیش کرکے بیرون ملک جانے کا راستہ مہیا کیا تھا ۔ حالانکہ پیپلز پارٹی پرویز مشرف کو شہید بے نظیر کے قتل کے نشانات مٹانے میں بھی موردِ الزام ٹھہراتی تھی۔ اور ان کے خلاف بے نظیر قتل کیس بھی قائم ہے۔ ق لیگ اور اس کی حکومت کو بنانے والے مشرف تھے اور ان سے غلط کام بھی کروانے کے پیچھے ان کی اپنی کابینہ یعنی ق لیگ کا ہی ہاتھ تھا۔فروری 2008ء کے انتخابات میں اپنی حامی جماعت مسلم لیگ ق کی عبرتناک شکست کے بعد صرف چھ ماہ کے اندر ہی صدر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا اور تب سے وہ لندن میں جا بسے تھے.۔اور جب مشرف پر برا وقت آیا تو ق لیگ نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ق لیگ اپنے نشانات ڈھونڈ رہی ہے۔ عام آدمی نے مشرف کے باہر جانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے سپریم کورٹ مبارکباد کی مستحق ہے جو کسی بھی خطرے سے بالا تر ہو کر بہت سے دوررس فیصلے صادر کر رہی ہے۔بقول کچھ ماہرقانون دانوں کے اگر ان پر کوئی مقدمہ بنتا تھا تو وہ صرف ایمرجنسی نافذکرنے کا،یعنی قانون کو معطل کرنے کا تھا۔ یکم اکتوبر 2010 میں ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف نے لندن کے نیشنل لبرل کلب میں نیوز کانفرنس کے دوران اپنے دورِ حکومت میں منفی اقدامات پر پاکستانی عوام سے معافی مانگتے ہوئے اپنی نئی سیاسی جماعت’’ آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ کے قیام کا اعلان کیا ۔ اور اس عزم کا اعلان بھی کیا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انہیں نہیں دْہرائیں گے ا ور پاکستان کے تابناک مستقبل کے لئے و ہ غربت، بھوک، جہالت اور پسماندگی کے خلاف جہاد کریں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام لیگیوں کو ایک چھتری تلے اکٹھا کر کے آل پاکستان مسلم لیگ کے قیام سے پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور وہ قومی تحفظ وبقا کے لیے ایک جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں جو بلا رنگ ونسل اور عقیدہ تمام پاکستانیوں کی ترقی کے لیے کام کریگی ۔ انگلینڈ سے بہت سے انقلابی مسیحی نوجوان اس میں شامل ہوگئے۔اس لئے یہ سیاسی پارٹی اور پرویز مشرف کی سوچ دوسری سیکرلر پارٹی سے مختلف ہے اور یہ پروگیسو اور لبرل پارٹی ہے ۔جس کے دورِ حکومت میں پاکستان کی اکانومی اور امن کی صورت حال بہتر ہوئی۔ بہت سے مسیحی اداروں کی واپسی ممکن ہوئی ۔ بلاسفمی لاء کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اقدامات کئے گئے اور انٹرفیتھ ہارمنی پر زور دیا گیا۔مسیحی لیڈرز کے کہنے پر اقلیتوں کے لئے مخلوط طرز انتخابات لاگو کیا۔جسکو بعد میں وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ اس بات سے درکنار کہ ڈکٹیٹر شپ جمہوری حکومت کی بالکل نفی ہے۔ جب پرویز مشرف نے ملک میں ماشل لاء نافذکیا تو بہت سی این جی اوز جن کا تعلق جرمن اور دیگر یورپی ممالک سے تھا ۔انہیں اپنے پروجیکٹس بند کرکے واپس جانا پڑاجس سے خاصکر بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کو بہت نقصان پہنچا ۔ دوسرے بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی شہادت سے بلوچستان میں پنجابیوں پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور انہیں اپنی جانیں بچانے کے لئے پنجاب کا رخ کر نا پڑا ۔ تب سے بلوچستان کے حالات ایسے بگڑے کہ اب تک سنبھل نہیں پائے۔دوسری طرف اگر ان کے دور حکومت کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو امن کی صورت حال بہت بہتر تھی اور بلوچستان کو چھوڑ کر ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر بہت کام ہوا۔وہ پاکستان سے موروثی سیاست اور خاندانی سیاست کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ پرویز مشرف نے پاکستان میں شیڈول کے مطابق 2013ء میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے بر ملا اپنے مسیحی دوستوں سے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان جا کر بہت بڑی غلطی کریں گے کیونکہ حالات ان کے حق میں جاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔اور نہ ہی نئی بننے والی آل پاکستان مسلم لیگ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ برسراقتدار آسکے۔پہلے ہی پیپلز پارٹی نے انہیں محفوظ راستہ دے کر ملک سے باہر جانے دیاتھا۔ان حالات کے پیشِ نظر پاکستان میں مسلم لیگ ن کی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی۔اس لئے بھی کہ گویا پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سال پورے کر لیے تھے مگر ان کی کارکردگی صفر تھی۔ اورپھر سب نے دیکھا کہ پرویز مشرف کے ساتھ کیا ہوا۔انہیں الیکشن میں حصہ لینے نہیں دیا گیا۔ سب جانتے ہیں پچھلے تین سال انہوں نے کس عذاب میں گزارے۔اگر ایک مقدمے میں عدالت انہیں بری کرتی تھی تو دوسرا تیار ہوتاتھا۔ یہی راستہ جو ان کے لئے محفوظ تھا۔ وہ بیرون ِ ملک ہی تھا۔ اب جب کے وہ علاج کے لئے دبئی میں ہیں اورعلاج کے لئے دبئی سے امریکہ بھی جاسکتے ہیں مگر انہوں نے اپنے علاج کی بجائے سیاسی گرمیوں پر زیادہ زور دینا شروع کر دیاہے اور ان سرگرمیوں سے لگتا نہیں کہ وہ واپس پاکستان جائیں گے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ کبھی حالات فیور میں ہوں ۔