• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’شمسی طوفان‘‘ یہ دنیا میں موجود ہر نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے

گذشتہ کئی بر سوں سے سائنس دان خلا میں ہونے والی نت نئی در یافتوں کے بارے میں جاننے میں سر گرداں ہیں ۔اس طر ح ماہرین سورج میں ہونے والی سر گرمیوں کا جائزہ بھی لے رہے ہیں ۔سائنس دانوں کے مطابق مستقبل میں سورج کی سر گرمی میں اضافے کی اُمید متوقع ہے اور اسی وجہ سے سورج کی سطح پر بڑے بڑے طوفان آنے کاخدشہ ہے ۔ان طوفانوں سے پیدا ہونے والے اثرات زمین پر روزمرہ کے معمولات کو بری طرح متاثر کریں گے ۔امریکی خلائی تحقیقی ادار ہ ’’ناسا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سورج کی مقناطیسیت میں نئی تبدیلیاں ہورہی ہیں جو نظام ِشمسی میں نمایاں تبدیلیوں کی وجہ بن سکتی ہیں۔ اس سے زمین پر موجود نظامِ زندگی متاثر ہونے کا خطرہ بھی ہے اور زمین کی سیٹلائٹ کمیونیکشنز، گلوبل یوزیشنگ سسٹم( جی ۔بی ۔ ایس) ایئر ٹریفک اور پاور گرڈ کا نظام تباہ ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں خلا میں موجود مصنوعی سیاروں پر بھی خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ متوقع شمسی طوفان سے دنیا تاریکی میں ڈوب جائے گی اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے آنے کا پتا صرف 12 گھنٹے قبل ہوگا۔ اس کے آنے کی امید2020تک متوقع ہے۔

ہمارے نظام شمسی کے مرکز میں موجود سورج ایک بہت بڑا ستارہ ہے۔ اس کے بغیر زندگی کاتصور ناممکن ہے انسانوں کے لیے جتنا لازمی ہے اتنا پراسرار بھی ہے اس کی کمیت اپنے نظام کی کل کمیت کا 99.86فی صد بنتی ہے۔ اس کا قطر13لاکھ92ہزار کلومیٹر ہے ۔ یعنی ہماری زمین جیسی109زمینیں ملیں گی تو ایک سورج بنے گا۔یہ زمین سے14کروڑ96لاکھ( تقریباً149.6ملین) کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا اپنا رنگ سفید ہے، تاہم زمین سے دیکھنے میں پیلا یا نارنجی دکھائی دیتا ہے اور اس کی روشنی 8 منٹ 19سکینڈ میں ہم تک پہنچتی ہے ۔ سورج پر یہ حرارت کسی ایندھن کے سبب نہیں ہے، جیسے کوئلہ، پیٹرول وغیرہ بلکہ یہ نیو کلیئر فیوژن کی وجہ سے زندہ ہے۔ اس میں موجود ہائیڈروجن گیس فیوژن سےہیلیئم گیس میں تبدیل ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ حرارت برقرار رہتی ہے سورج کی کل کمیت کا تین چوتھائی ہائیڈروجن پر اور باقی کا زیادہ ترہیلیئم پر مشتمل ہے ،بہت ہی کم مقدار میں لوہا ، آکسیجن، کاربن اور دیگر عناصر موجود ہیں۔ اس کے اندر سب سے زیادہ ہائیڈروجن 73.46فی صد،ہیلیئم 24.85فی صد اور دیگر گیسز صرف 1.69فی صد ہیں۔ جن میں آکسیجن0.77فی صد، کاربن 0.29فی صد، فولاد0.16فی صد، سلفر 0.12 فی صد ، نیون 0.12فی صد، نائیٹروجن 0.09 سلیکون 0.07 اور میگنیشئم 0.05فی صد شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق ان گیسز کی وجہ سے سورج کے اندر ہلچل رہتی ہے اور اسی وجہ سے اس کی سطح پر بھنور پڑے ہیں۔ جنہیں ہم سورج کے دھبے یاsun spots بھی کہتے ہیں۔سورج کی سطح پر نمودار ہونے والے دھبے سورج کے ایکٹیو یعنی فعال حصے ہیں۔ عموماً یہ اس وقت بنتے ہیں۔ جب مقناطیسی لکیریں جاتی ہیں ۔ ان کا کچھ حصہ اس عمل کے دوران ٹوٹ جاتا ہے اور سورج کی سطح پر نمودار ہو تا ہے۔ جوسورج کے کرے میں بہت زیادہ ریڈی ایشن (تابکاری) کا باعث بنتی ہے ۔اس ریڈی ایشن کے نتیجے میں سورج کے ذرات فضا میں بہنے لگتے ہیں جنہیں’’ شمسی ہوا‘‘ کہاجاتا ہے۔سورج کے دھبوں میں اس کے باعث زوردار دھماکے بھی ہوتے ہیں۔ اور ان دھماکوں سےsolar flares بے پناہ توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ جس میں برقی مقناطیسی اور ریڈیائی شعاعوں سمیت اربوں چارج پارٹیکلز یا برقی ذرات بڑی مقدار میں خارج ہوتے ہیں جسے کورونول ماس ایجکشن(CMES)کانام دیا جاتا ہے ۔یہ خلا میں بکھر کر نظام ِشمسی کے مختلف اجزام اور حصوں تک پہنچتے ہیں۔ تاہم زمین سے سورج کافی فاصلے پر ہے اسی لئے یہ طوفانی لہریں کرہ ٔارض تک نہیں پہنچتی ہے، مگر ہر سوسال بعد لازمی زمین سے ان کا ٹکرائو ہوتا ہے ۔

قدرت نے کرہ ٔارض کو اوزون جیسی تہہ اور van allen belt مقناطیسی حصار میں رکھا ہو ا ہے ۔یہ آسمان سے آنے والے خطرات سے نبرد آزما ہوتے ہیں ،قدرت نے اس حصار کو اتنا لچکدار بنایا ہے کہ وہ تمام تر دبائو کو برداشت کرتا ہوا کرہ ارض کو محفوظ رکھتا ہے ۔اوزون اور مقناطیسی حصار کی وجہ سے شمسی طوفان کے اثرات ختم تو نہیں ہوتے بلکہ کم ضرور ہوجاتے ہیں ۔اس طوفان کا دورانیہ کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے ۔ لیکن شمسی دھبوں کی وجہ سے ان کی شدت ،رفتار اور دورانیے میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے ۔سال 2000 ءمیں سولر میکسی مم( بڑے سورج کی باقاعدہ مدت ) شروع ہوا تھا جو 2003 ءتک بر قرار رہا ،پھر اس میں آہستہ آہستہ کمی آتی گئی اور2009 ء میں یہ انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گیا۔بعدازاں اس کی تمازت بڑھنا شروع ہوگئی اور 2012 ء میں تقریباً 70شمسی دھبے توانائی کو اگلنے کا موجب بنے ۔2013 ءمیں شمسی دھبوں کی تعداد کئی حد تک بڑھ گئی تھی ۔تاہم 2012 - 2013 میں سورج کی یہ شعاعیں زمین سے ٹکرائے بغیر گزر گئی تھیں ۔سائنس دانوں کے مطابق آئندہ آنے والے شمسی چکر میں 12فی صد شمسی طوفان کے زمین سے ٹکرانے کی اُمید ہے ۔ناسا کے ماہرین نے گزشتہ برس نمودار ہونے والے ایک شمسی دھبے پر تحقیق کی ۔اس دھبے کا نام AR 12192 ہے اوراس کا حجم مشتری سیارے کے برابر ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ32908 دھبوں میں سے یہ تیتیسواں سب سے بڑا دھبہ تھا ،مگر اب یہ زمین سے ہٹ چکا ہے یعنی اب اس کو نہیں دیکھا جاسکتا ۔اس بات کی اُمید کی جارہی ہے کہ سورج کے اگلے شمسی چکر میں یہ دھبہ زمین کے سامنے ہوگا ۔اگر اس دھبے سے خارج ہونے والےCMES کا رخ ڈائریکٹ زمین کی جانب ہوا تو اس کے نتیجے میں زمینی مقناطیسی طوفان پیدا ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین پر موجود سیٹلائٹ کا نظام بری طرح متاثر بھی ہوسکتا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق مستقبل میں جب یہ طوفان آئے گا تو 121گھنٹے میں پوری دنیا تباہ ہوجائے گی۔ا س کے باعث فضا میں اڑتے جہازوں کا نظام ،ٹرینوں کا نظام ،بجلی اور مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہوجائے گا ۔ناسا کے ماہر ڈاکڑرچر ڈفشر کے مطابق جدید دنیا کا انحصا ر الیکٹرانک مصنوعات پر ہے ۔اس طوفان کے سبب انٹر نیٹ اور موبائل سمیت دنیا بھر کا نیٹ سسٹم ختم ہوجائے گا ۔اس سے کمپیوٹر اور موبائل میں محفوظ ڈیٹا بھی ختم ہو سکتا ہے اور اس کے اثرات کئی برسوں تک زمین پر موجود رہے گے ۔ایک اندازے کے مطابق ا س شمسی طوفان سے دنیا کی معیشت کو تقریباً 46کھرب ڈالر کا نقصان بھی پہنچ سکتا ہے ۔سائنس دانوںکا کہنا ہے کہ سورج پر اگر کبھی شدید طوفان آئے تو وہ زمین پر مواصلاتی نظام کو تباہ کر سکتا ہے جس کی ہمیں بہت بڑی معاشی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

شمسی طوفان سے اس قدر خطرہ کیوں ہے؟

1972 میں ویتنام کے ساحل کے قریب درجنوں سمندری بارودی سرنگیں بظاہر بلاوجہ پھٹ گئی تھیں۔حال ہی میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ شمسی طوفان کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ طوفان زمین کے مقناطیسی میدان میں بھی خلل ڈال سکتے ہیں، مگر آج کے دور میں اس طرح کے واقعات سے زیادہ سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جیسے کہ سیٹلائٹوں سے لے کر بجلی کی ترسیل کے نظام تک ہمارے روز مرہ سسٹمز میں خرابی پیدا ہونا۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے واقعے کی صرف برطانیہ میں قیمت 16 ارب پاؤنڈ ہو سکتی ہے۔دنیا سے لاکھوں میل دور ہونے والے یہ واقعات ہمیں کیوں متاثر کرتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔

شدید شمسی طوفان کیوں آتے ہیں؟

سورج بر قی ہائیڈروجن کا اُبلتا ہوا انبار ہے ۔جب یہ مادّہ حرکت کرتا ہے تو اپنی مقناطیسی فیلڈ میں توانائی بھی جمع کرتا ہے ۔یہ مقناطیسی توانائی روشنی کی شدید چمک یا شمسی شعلوں کی صورت میں اور بڑی مادّی اور مقناطیسی فیلڈز کی شکل میں خارج ہوتی ہے،جنہیں شمسی طوفان کہا جا تا ہے ۔اگرچہ یہ شعلے زمین پر ریڈیو کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کرتے ہیں۔ہر شمسی طوفان میں دنیا کے تمام جوہری ہتھیاروں کے مجموعے سے ایک لاکھ گنا زیادہ توانائی ہوتی ہے اوریہ خلا کے وسیع حصے میں پھیل جاتی ہے۔سورج ایک وسیع گھومتی ہوئی آتش بازی کی طرح گھومتا ہے، جہاں سے وہ خلا میں ہر طرف اخراج کرتا رہتا ہے۔ جب شمسی طوفان زمین کے قریب سے گزر جاتا ہے تو زمین کی مقناطیسی فیلڈ ایک لمبی دم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اور جب یہ مقناطیسی فیلڈ واپس ٹھیک ہوتی ہے تو وہ زرات جو چارج ہو چکے ہیں، وہ بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ زمین کا رخ کر لیتے ہیں۔ جب یہ زرات زمین کی فضا سے ٹکراتے ہیں تو وہ جلنے لگتے ہیں جس سے معروف شمالی اور جنوبی لائٹس کا منظر سامنے آتا ہے۔تاہم زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں اس خلل کے اور بھی زیادہ سنگین اثرات ہوتے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ 1972 میں سمندری بارودی سرنگیں اسی وجہ سے پھٹی تھیں۔

اگلا شمسی طوفان کب آئے گا؟

سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان شمسی طوفانوں کو شروع کیا چیز کرتی ہے اور ایک مرتبہ شروع ہو جائیں تو خلا میں ان کو ٹریک کیسے کیا جا سکتا ہے۔زمین کے مقناطیسی ریکارڈ 19ویں صدی کے وسط سے موجود ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً ہر سو سال کے بعد خلا میں ایک انتہائی شدید موسمیاتی واقعہ ہو سکتا ہے، تاہم چھوٹے چھوٹے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔ 1859 ءمیں کیرنگٹن ایونٹ ہوا تھا جو اب تک کے ریکارڈ کیے گئے واقعات میں سب سے شدید تھا اور اس میں ٹیلی گراف کا نظام خراب ہو گیا تھا۔ سائنس دانوں نے خبر دار کیا ہے کہ اگر آئندہ اسی طر ح کا واقعہ پیش آیا تو اس کے نتائج اور بھی زیادہ سنگین ہوں گے ۔2018ء میں خلائی سیٹلائٹس ہمارے مواصلاتی اور نیویگیشن نظام کا اہم ترین حصہ ہیں۔ طیارے برِاعظموں کو ملاتے ہیں اور بجلی کی ترسیل کا نظام دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔شدید شمسی طوفان میں یہ سب درہم برہم ہو سکتا ہے۔

مستقبل کی منصوبہ بندی

ماضی میں خلا میں شدید موسمی واقعات میں اتنی سیٹلائٹس اور پاور گرڈز تباہ ہو چکی ہیں کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہمیں سورج پر نظر رکھنی ہوگی اور نظام شمسی کے زمین پر اثرات کے بارے میں پیش گوئی کرنے کے لیے سورج کا گہرا مشاہدہ ضروری ہے۔ ماہرین اس پر آسٹریلیا کے محکمہ موسمیات سے لے کر برطانیہ کے محکمہ موسمیات اور امریکا کے نوا سپیس ویدر پریڈکشن تک دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ وہ یہ بہتر اندار میں پتہ لگا سکتے ہیں کہ کب طوفان زمین کی جانب بڑھے گا اور وہ اس کی آمد کی پیش گوئی چھ گھنٹوں کے اندر اندر کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک درست خلائی موسمیاتی فورکاسٹ سے ہمیں اپنے آثاثے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی، تاکہ ہم طوفان کے دوران انھیں استعمال نہ کریں یا ایسی حالت میں رکھیں جہاں وہ محفوظ ہوں۔بہت سے طیارے یورپ سے شمالی امریکا آنے جانے کے دوران قطبِ شمالی کے اوپر سے گزرتے ہیں۔ شمسی طوفان کے دوران ان طیاروں کو دیگر راستے دیے جا سکتے ہیں، تاکہ قطبِ شمالی اور قطب جنوبی سے بچا جا سکے جہاں ان ذرات کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔1972 ءکے بعد سے ہم نے شمسی طوفانوں کے بارے میں بہت کچھ جان لیا ہے، مگر ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ ہر اس چیز کا مقابلہ کر سکے جو سورج ہم پر پھینک سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین