• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم یہ لفظ بے تحاشا استعمال کرتے ہیں۔ لکھتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں لیکن کیا کبھی غور کیا آپ نے کہ دراصل انسانی کردار کی یہی کمزوری فساد فی الارض کی بنیادی وجہ ہے۔ اس سے قلب خالی ہو تو عرش کی مانند روشن اور منور ہوتا ہے اور اگر باطن اس کی تاریکی میں ڈوبا ہو تو جہنم بن جاتا ہے۔ گویا جنت کا سکون بھی انسان کے اندر موجود ہے اور جہنم کا آتش کدہ بھی انسان کے اندر ہی موجود ہے۔ انحصار ہم پر ہے کہ ہم جیتے جی جنت کے مزے لینا چاہتے ہیں یا زندگی جہنم میں ہی گزارنا چاہتے ہیں۔ بھلا وہ کون سا ایک لفظ، ایک کمزوری، ایک تحرک اور ایک خواہش ہے جس سے نجات حاصل کر کے انسان زندگی ہی میں جنت کی مانند زندگی گزار سکتا ہے اور جس کا غلام بن کر زندگی کو جہنم میں تبدیل کر سکتا ہے۔ بے تحاشا استعمال ہونے والا وہ لفظ ’’ہوس‘‘ ہے جو انسان کو اعلیٰ ترین بینائی کے باوجود اندھا کر دیتی ہے اور اس سے قتل و غارت کرواتی، سرعام ضمیر اور ذہن نیلام کرواتی اور اسے فساد کا موجب بناتی ہے۔ کیا آپ ہر روز اخبارات میں ایسی خبریں نہیں پڑھتے کہ بیٹے نے جائیداد کی خاطر والد، بھائی حتیٰ کہ ماں کو بھی قتل کر دیا۔ ہوس کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں ہوسِ مال و زر، ہوسِ جاہ، ہوسِ اقتدار، ہوسِ شہرت وغیرہ شامل ہیں لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ان میں خطرناک ترین قسم ہوسِ مال و دولت ہے جو دل میں اندھی خواہشات کے بت تعمیر کر دیتی ہے اور انسان بغیر سوچے سمجھے ان کی پرستش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق ہوس ایک ایسی بنیادی بیماری ہے جس سے حسد، انتقام، نفرت اور حرام جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور انسان باطنی طور پر ان روحانی بیماریوں کی آگ میں ہر وقت سلگتا اور جلتا رہتا ہے اور پھر انہی کی سزا کے طور پر پھانسی چڑھتا، ذلیل و خوار ہوتا، قید و بند کی اذیت سہتا ایک جہنم سے دوسری جہنم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ہوسِ اقتدار و سلطانی ملکوں اور قوموں کو زیر نگین کرتی اور انسانی خون کی ندیاں بہاتی ہے جبکہ ہوسِ مال و دولت خون اور محبت کے رشتوں کا خون کرتی اور مال و دولت کے ساتھ زندگی کا جہنم خریدتی ہے جبکہ ہوسِ جاہ انسان میں تکبر، غرور، بے حسی اور مردہ ضمیری پیدا کرتی ہے کیونکہ جاہ پرست حکمران یا اقتدار کی قربت حاصل کر کے رعب و داب، مرتبہ اور دنیاوی عزت تو حاصل کر لیتا ہے لیکن قرب سلطانی کی دوڑ میں اکثر اپنا ضمیر کھو بیٹھتا ہے۔ قرب سلطانی کے حصول کا پہلا تقاضا خوشامد ہوتا ہے اور خوشامد ضمیر کا خون کر دیتی ہے۔ خوشامد اور دربار داری بروز وفاداری کبھی کبھی دنیا میں ہی ذلت و خواری کا باعث بنتی ہے اور غرور و تکبر دنیا کے سامنے وقت کے پائوں تلے کچلا جاتا ہے۔

ہوس سے پاک زندگی گزارنے والوں کو میں نے دنیا ہی میں جنت کے سکون اور قلبی راحت سے مالا مال دیکھا ہے۔ جب انسان اپنے قلب کو ہر قسم کی ہوس سے صاف کر لیتا ہے تو اس پر نورِ الٰہی برسنا شروع ہو جاتا ہے جو انسان کو ہر قسم کے رنج و الم، شیطانی خواہشات اور نفرتوں سے آزاد کر کے رضائے الٰہی کا خوگر بنا دیتا ہے حتیٰ کہ انسان بڑے سے بڑے نقصان، سانحے، حادثے اور صدمے کو رضائے الٰہی جان کر قبول کر لیتا ہے اور اللہ پاک کی عطا کردہ صبر کی گود میں بیٹھ کر ہر قسم کے غم اور رنج سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کی اعلیٰ ترین منزل یا انتہا وہ کلمہ رضا و حق ہے جو مولا علیؓ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی عظیم بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے نہایت پیارے بھائی، دو بیٹوں اور بھتیجوں کی کربلا میں شہات کے بعد کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار میں کہا۔ لہو اور صدمات میں ڈوبا جب ٹوٹا پھوٹا قافلہ کوفہ کے ظالم و سنگدل اور ہوسِ جاہ کے پجاری ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہایت پیاری نواسی سے پوچھا ’’آپ نے اپنے بھائی کے سلسلے میں خدا کے امر کو کیسا پایا‘‘۔ زینب رضی اللہ عنہا نے نہایت سکون اور تیقن سے جواب دیا ’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ انہیں مقتول دیکھے۔ اب وہ لوگ خدا کی ابدی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں‘‘۔ انسانی تاریخ رضائے الٰہی کی اس سے بہتر مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایک طرف صبر و رضا اور دوسری طرف ہوسِ اقتدار، ہوسِ جاہ اور ہوسِ مال تھی اور اس ہوس نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض سے برپا ہونے والے قلبی و روحانی انقلاب کی روشنی کو ماند کر دیا تھا۔ وہ انسانی عظمت کی معراج تھی اور یہ انسانی پستی کی انتہا۔

ہم ہر روز مال و زر کی ہوس کے عبرت ناک مظاہر دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن اس حوالے سے مجھے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے شہزادگان کی شہادت سے بہتر مثال نہیں ملتی۔ امام عالی مقام سیدنا حضرت حسینؓ نے جب اہل کوفہ کے خطوط اور عقیدت کو دیکھ کر تحقیق حال کے لئے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ بھیجا تو وہ اپنے ساتھ اپنے دو معصوم صاحبزادوں کو بھی لے گئے۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کر دیا گیا تو ابن زیاد نے یزید کی خوشنودی کے لئے ان دو صاحبزادگان کی گرفتاری کا حکم دیا اور گرفتار کرنے والے کے لئے بہت بڑے انعام کا اعلان کیا۔ کہانی طویل ہے لیکن مختصر یہ کہ حارث نامی شخص نے انعام کی ہوسِ زر سے اندھا ہو کر ان دو بچوں کو گرفتار کر لیا اور قتل کے درپے ہوا کہ کہیں بھاگ نہ جائیں اور وہ انعام سے محروم نہ ہو جائے۔ جب ان بچوں کے قتل کی راہ میں اس کی بیوی اور بیٹا حائل ہوئے تو اس نے ان کو بھی شہید کر دیا۔ جب حارث کے غلام نے بچوں کو شہید کرنے سے انکار کیا تو اسے بھی شہید کر دیا۔ حارث ان معصوم بچوں کو شہید کرنے کے بعد ان کے سر مبارک لے کر گورنر ابن زیاد کے دربار میں انعام پانے کے لئے حاضر ہوا تو وہ غضب ناک ہو گیا۔ اس نے حکم عدولی پر حارث کو قتل کروا دیا کیونکہ گورنر ابن زیاد نے زندہ گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ یوں قدرت کا انتقام اپنے انجام کو پہنچا اور ہمارے لئے ہوس کی بدترین عبرتناک مثال چھوڑ گیا لیکن تلخ سچ یہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود انسان کم کم ہی عبرت پکڑتا ہے اور ہوس کی مختلف قسموں کا غلام بن کر زندگی گزار دیتا ہے۔ بظاہر عیش و عشرت کی چمکدار زندگی کے باطن میں خلش، حزن، خوف اور لامتناہی خواہشات کی آگ جلتی رہتی ہے جو انسان کے باطن کو جہنم بنائے رکھتی ہے۔ اس کے برعکس جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہوس سے نجات کی توفیق عطا فرماتے ہیں وہ دنیاوی زندگی ذہنی سکون اور قلبی راحت کی جنت میں گزار دیتے ہیں۔

تازہ ترین