• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • پہلی خطا سے آخری بربادی تک اِسی ’’ذائقے‘‘ کی مرہونِ منّت ہے
  • دنیا چھوٹی پڑ گئی تھی، ہر نظر اپنی جانب تکتی، گھورتی محسوس ہوئی
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

حکیم یعقوب کی جہاں دیدہ نظر نے لمحے بھر میں ہماری کلائیوں پر پڑے ہتھکڑیوں کے سیاہ نشان دیکھ لیے، گھبرا کر بولا ’’تم…کون ہو…کیا جیل سے بھاگ کر آئے ہو…؟‘‘ بخت خان کے جسم میں تنائو سا پیدا ہوا، جیسے وہ حکیم یعقوب کو شور مچانے سے پہلے ہی دبوچ کر اس کا منہ بند کردینے کا ارادہ کر بیٹھا ہو، مگر میں نے دھیرے سے بخت خان کا ہاتھ دبا کر اُسے تحمّل کا اشارہ کیا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو ہم اندر بیٹھ کر بات کریں۔ میرے ساتھی کی حالت ٹھیک نہیں۔ اسے گہری چوٹ آئی ہے اور پہلے ہی کافی خون ضایع ہوچکا ہے۔ ‘‘ حکیم کی حکمت نے جیسے جوش مارا اور وہ بخت خان کا زخم دیکھ کر پَل بھر کے لیے اپنی فکر، اندیشے بُھلا بیٹھا۔ ’’ٹھیک ہے، اندر آجائو۔‘‘ گھر کے چھوٹے سے صحن میں پیپل کا ایک پیڑ اور سامنے کُھلا برآمدہ تھا، جہاں قطار میں تین کمروں کے دروازے کُھلتے تھے۔ حکیم نے اپنی بیٹھک میں ہمیں بٹھایا اور جلدی سے بخت کا زخم کھول کر دیکھا، پھر الماری سے چند دوائوں کا لیپ نکال کر بخت کی تازہ پٹّی کردی۔ ’’زخم بہت گہرا ہے اور میرے پاس زیادہ دوائیں نہیں۔ پٹّی روزانہ بدلنی ہوگی، مگر مَیں نے اپنا مطب بہت پہلے بند کردیا تھا۔ اب میں حکمت نہیں کرتا۔‘‘ بخت خان کو میں نے ایک جانب پڑے پرانے صوفے پر لٹا دیا۔ حکیم اب بھی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ’’تم نے بتایا نہیں، کون ہو تم دونوں…اور اُس ناہنجار اسلم کو کیسے جانتے ہو؟‘‘ ’’ہم اسلم کے جیل کے ساتھی ہیں، قانون کی نظر میں مجرم ہیں، ہمیں کچھ روز کے لیے پناہ چاہیے۔ مَیں آپ کو کبھی زحمت نہ دیتا، اگر بخت خان کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی۔ اِس کی طبیعت سنبھلتے ہی ہم یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔‘‘حکیم یعقوب نےایک لمبا سانس لیا، ’’مطلب میرا شک صحیح تھا۔ تم دونوں جیل توڑ کر آئے ہو…‘‘ مَیں چُپ رہا، حکیم کے چہرے پر خوف سے زیادہ پشیمانی کی پرچھائیاں تھیں۔ ’’تمہیں تانگے والے نے دیکھ لیا ہے۔ یہ گائوں اتنا بڑا نہیں، جہاں لوگ چہرے جلدی بھول جائیں۔ جلد یا بدیر یہ بات پھیل جائےگی۔‘‘ میں نے بخت کی طرف دیکھا، جو آنکھیں بند کیے لیٹا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ ’’ہم بات پھیلنے سے پہلے یہاں سے دُور جا چُکے ہوں گے۔ آپ بس اسلم کی خاطر دو چار دن ہمیں یہاں پناہ دے دیں۔‘‘ حکیم یعقوب کچھ دیر ہم دونوں کی طرف فکر بھری نظروں سے دیکھتا رہا، پھر ایک گہری سانس لے کر بولا۔ ’’مَیں تم لوگوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کرتا ہوں۔ تب تک تم بھی کچھ آرام کرلو۔‘‘ حکیم بیٹھک سے باہر جانے لگا، تبھی بخت خان نے پیچھے سے اُسے آواز دے کر روکا، بخت خان کی آنکھیں ابھی تک بند تھیں۔ ’’حکیم صیب… گھر میں اور کون کون ہے اِدھر؟‘‘ حکیم چونکا۔ ’’کوئی نہیں، اب تو اکیلا رہتا ہوں مَیں۔ بیوی اللہ کو پیاری ہوگئی اور بال بچے اپنے گھروں کے ہوچُکے۔‘‘ بخت نے آنکھیں کھولیں۔ ’’گھر میں کوئی ہتھیار ہے، کوئی طمنچہ وغیرہ۔ رائفل، دو نالی ٹائپ چیز پڑا ہے۔‘‘ حکیم پریشانی سےبولا۔ ’’ہاں، پُرانے وقتوں کا ایک ریوالور رکھا ہے اور چند گولیاں، جنہیں چلانے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ بخت خان کا جواب ہمیشہ کی طرح مختصر تھا۔ ’’ضرورت پڑسکتا ہےحکیم صیب! تم وہ طمنچہ ہمارے حوالے کردو۔‘‘ حکیم کچھ ہچکچایا، مگر پھر بِنا کچھ کہے اُس نے بیٹھک کی اندرونی دیوار میں بنی ایک پرانی لکڑی کی الماری کا تالا کھولا اور اندر سے کچھ ٹٹول کر ایک پوٹلی سی باہر نکالی۔ کپڑے کی پوٹلی میں ایک پرانا امریکن ساختہ کولٹ ریوالور اور قریباً تیس پینتیس گولیاں بندھی تھیں۔ بخت خان نے کسی ماہر نشانے باز کی طرح ریوالور کی چرخی گُمھا کر اسے پانچ چھے مرتبہ جانچا اور ریوالور کی پِھرکی میں چھے گولیاں بھرلیں، پھر میری طرف دیکھ کر بولا، ’’عبداللہ خاناں…تم نےکبھی پستول چلایاہے…؟‘‘ ’’نہیں، کبھی ضرورت نہیں پڑی اور جو دو گولیاں میرے کھاتے میں ایف آئی آر میں درج ہیں، وہ بھی کسی اور کے ہاتھ سے چلی تھیں۔‘‘ بخت خان نے اطمینان سے کہا ’’کوئی بات نہیں، ہم تم کو سکھا دے گا۔‘‘

تھوڑی دیر میں حکیم سلور کی ایک چینک میں اُبلتی چائے، گرم پراٹھے اور ہاف فرائی انڈوں کا ناشتا لیے کمرے میں داخل ہوا، تو پَل بھر میں، مَیں اور بخت خان زمانے کی ہر فکر بُھلا کر ناشتے میں ایسے مگن ہوئے، جیسے جیل سےبھاگے قیدی نہ ہوں حکیم یعقوب کے گھر دعوت پر آئے کوئی خاص مہمان ہوں۔ شاید دنیا میں انسان کی سب سے بڑی تحریک اور سب سے بڑی مجبوری دونوں ہی اس ایک لفظ میں پوشیدہ ہیں، ’’بھوک‘‘۔ شاید سالوں سے جیل کے لنگر کا ایک ہی مستقل بدمزہ کھانا کھاتے ہمارے ذائقے کی حِس بھی مُردہ ہوچُکی تھی۔ برسوں بعد ایک نیا ذائقہ چکھنے کو ملا تو رفتہ رفتہ ساری حِسّیات بیدار ہونے لگیں، انسان اس نئے ذائقے کے پھیر میں کیا کچھ نہیں کر جاتا۔ اُس کی پہلی خطا سے لے کر آخری بربادی شاید اسی ذائقے کی مرہونِ مِنّت ہے، معدہ بھرنے کے بعد غنودگی محسوس ہونے لگی، مگر بخت خان نے مجھے ہوشیار کیا کہ ہم میں سے ایک کو ہرحال میں جاگنا ہوگا۔ شاید وہ حکیم یعقوب پر ابھی تک پورا بھروسا نہیں کرپایا تھا۔ میں نے بخت کو سونے کا کہا اور خود نیند بھگانے کی ترکیبیں کرنے لگا۔ یہ نیند بھی کیسی عجیب دشمن ہے ہماری، ہمیشہ ہماری خواہش کے برعکس مزاج رہتا ہے اس کا۔ شام ڈھلنے سے پہلے حکیم نے بیٹھک میں جھانکا۔ ’’مجھے گھر سے باہر جانا ہوگا، کچھ راشن وغیرہ لینا ہے اور باہر کی خبر بھی رکھنی ہے۔ مَیں آج پورا دن گھر سے نہیں نکلا۔ یہ گلی محلے کے لیےخلاف معمول بات ہے۔‘‘ بخت خان نے حکیم کی طرف دیکھا۔ ’’نہیں حکیم صیب! اس چار دیواری سے باہر جانا منع ہے۔ ہمارا مجبوری سمجھو۔‘‘ حکیم نے پریشانی سے میری طرف دیکھا۔ ’’اس طرح تو لوگوں کو مزید شک ہوجائے گا اور گھر میں روزمرّہ کی اشیاء کی بھی ضرورت ہے۔ مَیں روز شام کو اِسی وقت سودا سلف لینے جاتا ہوں۔ کچھ پرانے دوستوں سے گپ شپ بھی ہوجاتی ہے، میں نہیں گیا تو وہ یہاں آجائیں گے۔‘‘ بخت خان کے سخت لہجے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ کسی صُورت حکیم یعقوب کو گھر سے باہر جانے دینے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ مَیں نے کچھ دیر صُورت ِحال کا جائزہ لیا اور پھر حکیم سے کہا۔ ’’ٹھیک ہے…آپ ہو آئیں بازار سے۔ ہم آپ کے آنے کا انتظار کریں گے۔‘‘ بخت خان نے پریشانی سے پہلو بدلا، مگر میرا فیصلہ سُن کر چُپ رہا۔

حکیم کےجانے کےبعد کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی۔ صرف دیوار پر لگے پرانے گھڑیال کی ٹک ٹک اور دُور کہیں کھیتوں میں چلتی پَن چکّی کی کُوک ماحول میں گونج رہی تھی۔ جب حکیم یعقوب کو گھر سے نکلے دو گھنٹے سے بھی اوپر ہونے کو آئے تو بخت خان کی بے چینی عروج پر پہنچ گئی۔ ’’تم نے اس کو اجازت دے کر غلطی کیا عبداللہ خاناں! لگتا ہے وہ اب پولیس کو لے کر ہی واپس آئے گا۔‘‘ شک کاناگ تو میرے ذہن میں بھی کلبلانے لگا تھا، ٹھیک اسی لمحے صحن کےدروازے کے باہر بہت سے لوگوں کی تیز آوازیں اور بھگدڑ جیسا شور مچا۔ بخت خان نے تڑپ کر ریوالور نکالا اور غیر ارادی طورپر اپنی ہی بھری ہوئی گولیاں دوبارہ چیک کیں اور میری طرف یوں دیکھا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’دیکھا، میں نے کہا تھا ناں کہ ایک اجنبی پر اتنا بھروسا ٹھیک نہیں۔‘‘بخت خان نے لپک کر کمرے کے صحن میں نکلنے والی کھڑکی کھولی اور باہر صحن کے دروازے پر اپنا نشانہ جما دیا۔ ’’تم پچھلے دروازے سے نکل جائو عبداللہ۔ ہم ان کو اِدھری روکتا ہے۔‘‘ آوازیں صحن کے دروازے کے باہر پہنچ چُکی تھیں۔ اور پھر کسی نے زور زور سے صحن کا دروازہ پیٹنا شروع کردیا، جِسے مَیں حکیم کے باہر جانے کے بعد اندر سے بند کرچکا تھا۔’’نہیں،اگرجائیں گےتو دونوں جائیں گے۔‘‘ ’’ضد مت کرو، ہم زیادہ تیز بھاگ نہیں سکتا۔ دونوں مارا جائے گا۔‘‘ مَیں نے بخت خان کی سُنی اَن سُنی کردی۔ ’’تم یہیں بیٹھو، میں باہر دیکھتا ہوں۔‘‘ مَیں بخت خان کا جواب سُنے بغیر صحن میں نکل آیا۔ باہر والوں کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ مَیں نے پلٹ کر کھڑکی کی اوٹ میں چھپے بخت خان کو دیکھا، جس نے ریوالور کی لبلبی پر اپنی انگلی کا دبائو بڑھا رکھا تھا اور اب اس کے ہتھیار کا کھٹکا صرف ایک ہلکی سی جنبش کا منتظر تھا۔ مَیں نے دروازے کے قریب پہنچ کر اپنے حواس یک جا کیے۔ ’’کون ہے…؟‘‘ باہر سے کسی کے دیہاتی لہجے میں بولنے کی آواز سُنائی دی۔ ’’وہ جی حکیم صاحب ہیں گھر پر۔ ہم مریض لے کر آئے ہیں۔‘‘ مَیں نے چند لمحے باہر اُبھرنے والی سرگوشیوں کا جائزہ لیا اور پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔ باہر چند دیہاتی ایک چارپائی پر کسی مریض کو ڈالے پریشان کھڑے تھے۔ مَیں نے ایک گہرا سانس لیا۔ ’’حکیم صاحب تو بازار گئے ہیں۔ ہم اُن کے مہمان ہیں… اتنے میں پیچھے کہیں سے حکیم یعقوب کی آواز آئی۔ ’’اوئے سلامے! تُو پھر اِسے اٹھا لایا۔ کتنی بار کہا ہے میں نے کہ اپنے مریض کو شہر لےجا۔ یہاں اس کا علاج ممکن نہیں۔‘‘ حکیم مجھے دروازےپرکھڑےدیکھ کر صورتِ حال سمجھ چُکا تھا۔ تبھی اس نے چُھوٹتے ہی مجھ سے کہا ’’اور ہاں، احمد بیٹا ! میں نے بازار میں تانگے والے سے کہہ دیا ہے۔ ابھی آتا ہی ہوگا۔ تم لوگ تیاری کرلو۔ رات والی گاڑی کی ٹکٹ کروا دی ہے مَیں نے۔‘‘ حکیم نے ایک تیرسےدوشکارکیے۔ مریض کے رشتے داروں کے سامنے اُس نے یہ ظاہر کردیا کہ ہم جو بھی تھے، کچھ دیر میں وہاں سے رخصت ہونے والے تھے۔ مریض کو اُس نے وہیں دروازے پر کھڑے کھڑے ایک پُڑیا کِھلائی اور اُن لوگوں کو رخصت کردیا، کیوں کہ وہ انہیں اپنے مہمانوں کو لے کر اسٹیشن روانہ ہونے کا عندیہ پہلے ہی دے چُکاتھا۔ یہی اُس کے زیرک ہونے کی نشانی تھی، کیوں کہ مریض کے ورثاء کے ذریعے یہ بات چھوٹے سے گائوں میں جلد پھیل جانی تھی کہ حکیم کے مہمان رخصت ہو رہے ہیں۔ مَیں نے اندر جاکر بخت خان کو ’’سب ٹھیک‘‘ کا اشارہ کیا تو اس کے تنے ہوئے اعصاب معمول پر آگئے۔ حکیم نے اندر آکر ہمیں بتایا کہ جیل ٹوٹنے کی خبر ریڈیو کے ذریعے گائوں کے بازار میں پھیل چُکی ہے اور طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔ جلد یا بدیر پولیس یہ علاقہ بھی چھاننے آتی ہی ہوگی۔ اس سے پہلے گائوں والوں کے سامنے ہمارا مہمانوں کی طرح حکیم کے گھر سے رخصت ہونا ضروری تھا تاکہ پولیس اگر کسی سے پوچھ گچھ کرے بھی تو کسی کو کوئی شک نہ ہو۔ حکیم یعقوب کے منصوبے کے مطابق کوئی دوسرا تانگے والا ہمیں رات آٹھ بجے لینے آگیا اور حکیم ہمارےساتھ ہی ریلوے اسٹیشن کے لیےگھر سے نکل پڑا، جیسے کوئی اپنے کسی عزیز مہمان کو ٹرین چڑھانے جاتا ہے۔ ہم نے اپنے چہرے ممکنہ حد تک چُھپائے رکھے، بخت خان تو ویسے بھی بیماری کے بہانے منہ لپیٹے تانگے کی پچھلی سیٹ پر ڈھلکا رہا اور میں اُسے سنبھالنے کے بہانے اس پر جُھکا بیٹھا تھا۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بھی ہم نے ایک اندھیرے گوشے میں بچھا لکڑی کا سال خوردہ بینچ تلاش کیا۔ ٹرین چند لمحے کے لیے پلیٹ فارم پر رُکی، تب تک حکیم یعقوب ہمارے انہی فرضی ناموں سے دو ٹکٹ خرید چُکا تھا۔ ہم دونوں دُور ٹکٹ گھر کی کھڑکی سے جھانکتے ٹکٹ بابو کی نظروں کے سامنےٹرین پرسوار ہوئے،مگر خاموشی سے دوسری طرف اندھیری پٹریوں پر اتر کر لمبے راستے سے اسٹیشن کےاحاطےسےباہرنکل آئے۔جہاں دُور اندھیرے میں حکیم یعقوب ہمارا انتظار کررہا تھا۔ ہم نے وہیں کھیتوں سےباہر رات کےپوری طرح بھیگ جانے کاانتظار کیا اورپھرچپ چاپ خاموش پگڈنڈیوں پر چلتے کھیتوں کے راستے حکیم کے گھر کے عقب تک پہنچ گئے، جہاں پچھلی طرف بیٹھک کا دروازہ کُھلتا تھا اور جِسے حکیم نے پہلے ہی کُھلا چھوڑ رکھا تھا۔

گھر داخل ہونے تک بخت خان کا جسم اتنی مشقّت کے بعد پھر سے تپنے لگا تھا ۔حکیم نے جلدی سے بخت خان کے لیے کوئی یخنی سی بنائی اور دوا دے کر اُسے آرام کرنے کا کہا۔ بخت خان نے غور سے حکیم یعقوب کی طرف دیکھا۔ ’’تم اچھا آدمی ہے حکیم صیب،ہم کو معاف کردو۔ تم پر شک کیا۔‘‘ حکیم نے مُسکرا کر بات ٹال دی۔ جاڑا آنے کو تھا لہٰذا گائوں کی رات خنک ہوچُکی تھی۔ مَیں وہیں زمین پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا، جہاں حکیم نے میرا بستر ڈال رکھا تھا۔ بخت خان جلد ہی سو گیا۔ حکیم نے کمرے میں جھانکا۔ ’’ابھی تک جاگ رہے ہو؟ سوجائو۔ تم نے بھی بڑی بے آرامی کاٹی ہے۔‘‘ مَیں نے حکیم کی طرف دیکھا۔ ’’آپ آرام کریں، میرے مقدّر میں شاید ابھی آرام نہیں اور پھر ہماری وجہ سے آپ کو جو زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے۔ مَیں اس کے لیے بہت شرمندہ ہوں۔‘‘ حکیم کی آنکھوں میں کئی سوال تھے۔ ’’ایک بات پوچھوں… تم اپنی بول چال اور چہر ے سے قاتل تو نہیں لگتے۔ میرا مطلب ہے آج بازار میں ہر طرف یہی بحث چل رہی تھی کہ جیل سے پانچ قاتل بھاگے ہیں، جیل توڑ کر۔ چھٹا وہیں مارا گیا۔ کیا واقعی تمہارے ہاتھوں کوئی بندہ مار اگیا تھا؟‘‘ مَیں نےحکیم یعقوب کواُس بھیانک رات کی ساری روداد مِن و عن سنادی۔ حکیم چپ چاپ سُنتا رہا۔ ’’جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا، تبھی مجھے ایسا لگا کہ تم ایسا جرم نہیں کرسکتے۔ تقدیر بھی کیسے کیسے تماشے دکھاتی ہے، مَیں نے تم لوگوں کے یہاں سے جانے کا یہ سارا ڈراما اسی لیے کیا ہے، کیوں کہ میں جانتا ہوں آنے والے دن تم دونوں کے لیے بہت سخت ہوں گے۔ پولیس مفرور کا پیچھا قبر تک نہیں چھوڑتی۔ تم دونوں جس مال گاڑی پر بھاگے تھے، اُس کے راستے میں آنے والے ہر اسٹیشن اور بستی کی خاک چھانے گی اب پولیس۔‘‘ حکیم کا دعویٰ بالکل سچ ثابت ہوا اور اگلی صبح ہی گائوں میں دوسرے ضلعے کی پولیس پہنچ چکی تھی۔ گائوں کے نمبردار کے ساتھ چوپال کے ڈیرے میں سبھی گائوں کے معتبرین کو اکٹھا کرکے پوچھ گچھ شروع کردی گئی۔ حکیم یعقوب کی حکمت کام کرگئی اور اس کے گھر آنے والے دو مہمانوں کا ذکر برائے نام ہی رہا، کیوں کہ سبھی جانتے تھے کہ ہم اگلی رات وہاں سے روانہ ہوچُکے تھے۔ ہماری طرح کچھ اور لوگوں کے گھر بھی مہمان آئے یا گئے تھے۔ جو موجود تھے، انہیں وہاں چوپال میں بلوا کر طریقے سے ان کی شناخت کرلی گئی اور پولیس اگلے گائوں کی طرف روانہ ہوگئی۔ مگر حکیم گھر آیا تو اُس کے چہرے کی پریشانی بتا رہی تھی کہ معاملہ ابھی پوری طرح ٹلا نہیں ہے۔ ’’پولیس دوبارہ ضرور پلٹے گی، کیوں کہ انہیں آگے چل کر بھی کوئی کام یابی نہیں ہوگی اور اس بار وہ لوگ گھر گھر تلاشی لینے سے باز نہیں آئیں گے۔‘‘ بخت خان بولا۔ ’’ٹھیک ہے حکیم صیب! پھر ہم لوگ بھی آج رات نکل جائے تو اچھا ہے۔‘‘ ’’نہیں، ابھی تمہارا زخم تازہ ہے اور پولیس کو بھی پانچ چھے دن تو لگ ہی جائیں گے پلٹنے میں۔ یہ علاقہ بہت بڑا ہے۔ فی الحال تمہارے لیے یہی پناہ گاہ بہتر ہے۔‘‘ اُس رات میں نے حکیم یعقوب کو اپنے جیل سے بھاگنے کا مقصد اور مہرو کی کہانی سُنائی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ’’ہاں…میں نے اپنے بھتیجے سے یہ کہانی سُن رکھی ہے۔ وہ وہیں کرم داد کے گائوں ہی میں رہتا ہے۔ سال چھے ماہ میں میرا بھی جانا ہوتا ہے وہاں۔ یہاں سے 12گھنٹے ٹرین کی مسافت پر ہے رحیم گڑھ۔ مگر یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ اب تو لوگ اُس لڑکی کو بھول چُکے ہیں۔ اُس کی پاگل ماں سارا دن گلیوں کی خاک چھانتی ہے اور رات گائوں سے باہر بڑے پیر کے مزار پر تھک کے سوجاتی ہے۔ تم اب اس لڑکی کو کہاں ڈھونڈو گے۔ تین سال سے بھی زیادہ ہوچُکے، اسے غائب ہوئے۔ اس کے منگیتر نے بھی اگلے برس ہی شادی رچالی تھی۔ سُنا ہے اب تو بچّہ بھی ہے اُس کا۔‘‘ حکیم یعقوب سارے قصّے سے اچھی طرح واقف تھا۔ ان چھوٹے گائوں دیہات میں آج بھی بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے اور پھر یادوں کا دھواں برسوں سلگتا رہتاہے۔ ہم شہر والوں کی طرح کم زور یادداشت کے مالک نہیں ہوتے یہ لوگ۔ جہاں اگلے دو چار دن ہی میں کسی دوسرے حادثے کا چھینٹا پچھلے حادثے کی سُلگن بجھا دیتا ہے۔‘‘ جانے مجھے کیوں ایسا لگتا تھا کہ مہرو کی کہانی کا پہلا سِرا مجھے اس کے گھر کے آس پاس ہی ملے گا۔

اگلے تین چار دن میں بخت خان کی حالت کافی بہتر ہوگئی۔ پانچویں صبح گلی میں شور سا مچ گیا حکیم کے پوچھنے پر گلی میں کھیلتے بچّوں میں سے ایک نے دوڑتے دوڑتے ادھورا سا پیغام دیا۔ ’’چاچو! پولیس کی گاڑی آئی ہے بڑی سی۔ تلاشی ہو رہی ہے۔‘‘ مَیں نے بخت خان کی طرف دیکھا۔ ’’ہمارا جانے کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘ بخت خان نے جیب سے بہت سےروپے نکال کر حکیم کی جیب میں ڈالنا چاہے، مگر حکیم نے اُس کا ہاتھ روک دیا۔ ’’کیوں شرمندہ کر رہے ہو۔ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے اس پستول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ورنہ ضرور تمہارے حوالے کردیتا۔‘‘ مَیں نے حکیم کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ ’’آپ کی دُعائیں اس وقت سب سے قیمتی سوغات ہیں۔ دُعا کیجیے گا ہم اپنے مقصد میں کام یاب رہیں۔‘‘ حکیم سے گلے مل کر ہم پچھلے دروازے سے کھیتوں میں نکل آئے۔ دُور کہیں سے پولیس کے بڑے ٹرک کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔ حکیم نے ہمیں گائوں سے نکلنے کا راستہ ازبر کروا دیا تھا، ہم شام تک بنا رُکے کھیتوں کے اندر ہی اندر چلتے رہے، مگر آبادی میں داخل ہونے سے پرہیز کیا۔ رات بھی ایسے ہی کسی ویرانے میں رُکے بغیر گزار دی اور اگلی صبح ایک قصبے کے چھوٹے سے پلیٹ فارم پر رکی گاڑی میں ہم دونوں الگ الگ رحیم گڑھ کے دو ٹکٹ لےکر مختلف ڈبّوں میں سوار ہوگئے۔ ٹرین تیزی سے دوڑتی چھوٹے اسٹیشنوں پر بِنا رکے آگے بڑھتی رہی۔ مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا، جب ہم چُھپنا چاہیں، تو یہ پوری دنیا ہی چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ ہر نظر مجھے اپنی جانب تکتی، گھورتی محسوس ہورہی تھی۔ کیسی عجیب دنیا ہے یہ، جو ظاہر اور نمایاں ہونا چاہتے ہیں، انہیں ٹالتی، اُن سےگریز کرتی ہے، مگر جو خود کو چُھپانے، خفیہ رکھنے کے خواہش مند ہوں، انہیں گھور گھور کر بے نقاب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اچانک گاڑی کی رفتار کم ہونے لگی۔ شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ تبھی گاڑی رُکتے ہی چند پولیس والے ڈبّے میں چڑھ آئے۔ اُن میں سے ایک کی نظر مجھ پر پڑی۔ میں باقی لوگوں سے ذرا پرے ایک برتھ پر سوئے بزرگ کے قریب بیٹھا تھا۔ پولیس والا سیدھا میری طرف آیا۔ میرا جسم اکڑ سا گیا۔ ’’کون ہو تم…شناختی کارڈ دکھاؤ۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین