بھارت کے پچھلے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کو جن خطوط پر استوار کیا تھا اس سے یہ تو صاف نظر آتا تھا کہ وہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنی فطری انتہا پسندی کو کھلی چھوٹ دینے کا ارادہ کئے بیٹھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کی سیاست اور معیشت پر گہری نظر رکھنے والے صاحب الرائے افراد کی اکثریت برصغیر پاک و ہند کی فضا کو تیزی سے آلودہ ہوتے دیکھ رہی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں مقبوصہ جموں اور کشمیر کی جداگانہ حیثیت اور بھارتی آئین کی دفعہ 35اور 370کا خاتمہ کر کے نریندر مودی نے انتہا پسند ہندوئوں کی واضح اکثریت کو اپنا ہمنوا بھی بنالیا تھا لیکن ان سب کے باوجود عالمی مبصرین اور کشمیر واچرز(Watchers) کی اکثریت ان اقدامات کی اس تیزی سے توقع نہیں کر رہے تھے جس طرح گزشتہ ایک ماہ میں سامنے آنے والے حالات نے ثابت کیا ہے۔ آج بہر طور زمینی حقائق مندرجہ ذیل صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں:
1)بھارتی آئین سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت سے متعلق آئینی دفعات کا خاتمہ ہو چکا ہے اور وادی کو باقاعدہ بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔
2)ضلع لداخ کو جموں سے علیحدہ کر کے وفاقی علاقہ جات ( Federal Territories) کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اس طرح بھارت نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ ایک نئی سرحد کا اضافہ کر دیا ہے۔
3)حکومت کے اس اقدام کے خلاف کانگریس اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی۔ تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اس درخواست کی جلد سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کو وادی کے حالات کو قابو کرنے کے لئے مناسب وقت دینے کی ضرورت ہے اور درخواست کی سماعت اپنی باری پر کی جائے گی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب اسِ درخواست کی سماعت 5اکتوبر سے بھارتی سپریم کورٹ کا ایک پانچ رکنی بینچ کرے گا۔ قابض افواج کی طرف سے لا تعداد گرفتاریوں کی اطلاعات ملی ہیں جس کا خصوصی نشانہ نوجوان کشمیری مسلمان ہیں۔
4)بھارتی فوج کے تازہ دم دستوں کے وادی میں پہنچنے کے بعد گزشتہ 27دنوں سے مکمل محاصرہ کی صورتحال ہے اور پوری وادی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ کرفیو کے نفاذ میں کوئی وقفہ نہیں دیا جا رہا حتیٰ کہ جمعہ اور عید الاضحی کی نمازوں تک کے لئے کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ کرفیو توڑ کر نماز ادا کرنے کی کوشش کرنے والوں پر بھارتی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے براہ راست فائرنگ کی۔ تاہم مواصلات کے تمام ذرائع کی مکمل بندش کے باعث اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
5)مسلسل کرفیو کے نفاذ اور بے رحمانہ محاصرے نے اشیائے خور و نوش کی شدید قلت پیدا کر دی ہے اور بچوں اور بیماروں کی مسلسل بندش ایک نئے انسانی سانحے کو جنم دے رہی ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اور قابض افواج اس پر مسلسل خاموش اور سرد مہری کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
6)بھارت نے آزاد کشمیر اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول (LoC) پر تعینات فوجوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے اور بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ وہ کسی قسم کی بھی جارحیت کر سکتا ہے۔
7)دوسری طرف بھارتی حکومت کے اس یکطرفہ اقدام نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو کئی نئےچیلنجز کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ملک بھر اور آزاد کشمیر میں غم و غصہ کی ایک لہر اس کھلی جارحیت کا جواب چاہتی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت اور اس کے اداروں پر دبائو میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ایک بار پھر حکومت پاکستان نے کسی جذباتی ردعمل کے بجائے بین الاقوامی سطح پر سفارتی کوششوں کو اپنی حکمت عملی کا بنیادی جزو بنایا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے امریکہ، فرانس، برطانیہ، سعودی عرب، ایران، ترکی، ملائیشیا، بحرین، قطر اور کئی دوسرے ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت سے ذاتی طور پر رابطہ کیا ہے اور معاملات کی سنگینی کے پیش نظر کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین کا ہنگامی دورہ کیا جہاں چینی وزیر خارجہ کے ساتھ صورتحال پر تفصیلی جائزہ لیا گیا جس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں چین نے بھارت کے یکطرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے کھلی جارحیت قرار دیا اور ساتھ ہی لداخ کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر بھی سخت احتجاج کیا۔ تاہم چین کے علاوہ دوسرے تمام ممالک کا ردعمل نپا تلا اور خالصتاً سفارتی آداب کے مطابق رہا۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مسلم امہ کے سرکردہ ممالک کی جانب سے اس مسئلے پر تقریباً سرد مہری دیکھنے میں آئی جو پاکستانی عوام کے لئے خاصی حوصلہ شکنی کا باعث بنی۔
8)پاکستان نے معاملے کو باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس سنگین صورتحال پر سلامتی کونسل کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل نے اپنے ردعمل میں بھارت کے اقدام پر تشویش کا برملا اظہار کیا تھا تاہم سلامتی کونسل کےایک بندکمرہ اجلاس میں معاملے کا جائزہ لیا گیا۔ اگرچہ گزشتہ پچاس برس کے درمیان سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے پہلی کارروائی تھی لیکن یہ کارروائی بھی محض رسمی ہی رہی اور اس کا نہ تو کوئی اعلامیہ جاری ہوا اور نہ ہی کوئی ٹھوس یا مثبت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
9)امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کا بیان دے کر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا خصوصاً جب انہوں نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے کے لئے انہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے ابتدا میں ہمیشہ کی طرح ایک روایتی بیان پر ہی اکتفا کیا ہے جس میں دونوں ممالک سے برداشت اور باہمی رابطے میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ G-7کے حالیہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان اس مسئلہ پر بات ہوئی۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اس سے متعلق کوئی اہم بات نہیں کی گئی اور بظاہر پاکستان کے دفترخارجہ کی اس میٹنگ سےکی جانے والی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ پریس سے بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں کی( Body Language ) مکمل ہم آہنگی کی مظہر دِکھائی دیتی تھی۔ (جاری ہے)