ندیم اشفاق
عابدعلی نے سلیم چشتی کے تحریر کردہ ڈرامے ’’زنجیر‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ان دنوں جیو انٹرٹینمنٹ چینل سے ان کی دو ڈراماسیریلز ’’میرا رب وارث‘‘ اور ’’رمز عشق‘‘ آن ایئر ہیں۔ 1979ء میں امجد اسلام امجد کی لکھی ہوئی ڈراما سیریل ’’وارث‘‘ ان کی یادگار سیریل ثابت ہوئی اور ’’دلاور‘‘ کے کردار میں انہوں نے اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کیا۔عابد علی کو سات مرتبہ پی ٹی وی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا. تاہم ان کے حصے میں دو پی ٹی وی ایوارڈزآئے۔ 1982ء میں آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس پر لانگ پلے زندگی بندگی میں بہترین اداکار کا پی ٹی وی ایوارڈ حاصل کیا۔ان گنت فلموں میں اپنے فن کے جوہر سے شائقین کے دل جیت لیے۔ ان کی پہلی فلم خاک اور خون 1979ء میں ریلیز ہوئی۔ ان دنوں ان نئی فلم ’’ ہیر مان جا‘‘ سنیما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔
دراز قد، دل کش شخصیت، خوش گفتار، خوش لباس اور دھیما لہجے کے مالک منجھے ہوئے سینئر اداکار عابد علی کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کے ان فن کاروں میں کیا جاتا رہے گا ، جن کی شمولیت کسی بھی ڈرامے کی کام یابی کی ضامن سمجھی جاتی تھی۔ عابد علی ملک کے مایہ ناز فن کار تھے، جو مسلسل 50؍ سال شوبز سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی اداکاری کے ایسے نقوش ثبت کیے کہ ناقدین بھی ان کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔ انہوں نے ڈراموں کے علاوہ ریڈیو صداکاری، فلم اور ڈراموں کی ہدایت کاری میں بھی اپنا سفر کام یابی سے طے کیا۔ ان کی سابقہ اور موجودہ دونوں اہلیہ اور تینوں صاحب زادیاں بھی شو بز سے منسلک ہیں، وہ ایک پربہار شخصیت کے علاوہ خوش مزاج فن کار تھے۔
عابد علی، تین نسلوں کے نمائندہ فن کار رہے ۔انہوں نے ہمیشہ اپنے جونیئرز کی حوصلہ افزائی کی۔ سیٹ پر وہ نئے فن کاروں کی توجہ سے رہ نمائی فرماتے اور انہیں اداکاری کے رموز سے بھی آگاہ کرتے تھے۔ وراسٹائل فن کار عابد علی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پر صداکار کی حیثیت سے کیا۔ تاہم اداکاری ان کی مستند شناخت قرار پائی اور اس شعبہ سے وہ تادم مرگ وابستہ رہے۔ اداکار عابد علی 17؍ مارچ 1952ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ وہ مصوری اور تحریر نگاری میں دل چسپی رکھتے تھے۔ تاہم زمانہ طالب علمی میں انٹر کالجز مقابلے کے دوران کوئٹہ کی ممتازادبی شخصیت عطا شاد نے ان کے اندر چُھپی فنکارانہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور انہیں ریڈیو جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔ اپنی بھاری گرج دار آواز اور عمدہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے باعث ریڈیو آڈیشن میں کام یاب ہوگئے اور پھر کچھ عرصے ریڈیو ڈراموں سمیت مختلف ریڈیو پروگرامز میں صداکاری کے جوہر دکھائے۔
گریجویشن کے بعد عابد علی نے حصول روزگار اور بہتر مستقبل کے لیے لاہور کا رخ کیا اور لاہور ٹی وی سینٹر میں آڈیشن دیا ۔ تاہم متعدد مرتبہ انہیں مسترد کردیا گیا ۔ تا ہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بعد ازاں انہیں پی ٹی وی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔انہوں نے سلیم چشتی کے تحریر کردہ ڈرامے ’زنجیر‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ پہلے ہی کھیل میں وہ لاہور ٹی وی کے دیگر پروڈیوسرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کام یاب ہوگئے اور پھرممتاز پروڈیوسر نصرت ٹھاکر کی معرکۃ الآرا سیریل جھوک سیال( 1973ء) میں ان کی کردار نگاری نے انہیں ٹی وی کے صف اول کے فن کاروں میں لاکھڑا کیا۔ اس سیریل کے بعد عابد علی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا موقع نہیں ملا اور وہ برق رفتاری سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ 1979ء میں امجد اسلام امجد کی لکھی ہوئی ڈراما سیریل ’’وارث‘‘ ان کی یادگار سیریل ثابت ہوئی اور ’’دلاور‘‘ کے کردار میں انہوں نے اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے لاتعداد ڈراما سیریلز، ٹیلی پلے، لانگ پلے، خصوصی کھیل اور مختلف ڈراما سیریز میں حصہ لینے کے علاوہ اپنے ذاتی پروڈکشن کے بینر تلے تیار ہونے والے ان گنت ڈراموں میں فنی جوہر دکھائے۔ وہ منفی، مثبت سمیت ہر قسم کے کردارادا کرنے کےماہر سمجھے جاتےتھے۔ ٹیلی ویژن کے علاوہ ان کا فلمی کیریئر بھی خاصا تابناک رہا۔ انہوں نے پی ٹی وی لاہور کی ڈراما سیریلز ہزاروں راستے، سورج کےساتھ ساتھ، وقت (1985) نصر ت ٹھاکر کی خوب صورت سیریل پیاس 1989ء پروڈیوسر راشد ڈار کی سیریل خواہش 1990ء میں بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ اس سیریل میں ان کے ساتھ فلم اسٹار رانی بھی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ آزاد لوگ 1997ء اور مسافتیں 1999ء سمیت مختلف سیریلز میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ مزید برآں انہوں نے لائٹ پلے مرنے کے بعد 1988ء، نگار خانہ 1987ء، محبت محبت 1994ء، کھول آنکھ زمین دیکھ 1994ء، اندر کا آدمی 1995ء، رہائی، دستک 1995ء، امر بیل 1996ء، آیا کا ٹھیا، گرتی ہوئی دیوار اور پیغام زبانی اوریے1997ءمیں بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔عابد نے 19 سال کی عمر میں پی ٹی وی میں 65 سالہ بوڑھے کا کردار ادا کیا ،جسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد انہوں نے ہر طرح کے کردار ادا کئے ،جنہیں بے حد سراہا گیا۔
نجی پروڈکشنز کا جب باقاعدہ آغاز ہوا تو وہ مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگئے تھے، یہاں نہ صرف انہوں نے اپنے فنی سفر کو جاری رکھا، بلکہ ذاتی پروڈکشن ادارہ بھی قائم کیا، جس کے بینر تلے کئی ڈراما سیریلز پیش کیں۔ عابد علی پروڈکشن APP کے تحت غیر ممالک میں عکس بندی کی جانے والی پہلی ڈراما سیریل ’’اڑان‘‘ نمایاں رہی۔ شاہد محمود ندیم کی ہدایت میں تیار ہونے والی یہ سیریل 1995ء میں آن ایئر ہوئی اداکاری کے علاوہ عابد علی نے کئی ڈراما سیریلز میں ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے، جن میں آصف علی پوتہ کی تحریر کردہ سیریل پنجرہ 1997ء، سیریل آن 2000ء جس میں عتیقہ اوڈھو، جاوید شیخ، محمود اسلم، شگفتہ اعجاز، حسام قاضی اور آمنہ حق جیسے سینئر فن کار بھی شامل تھے۔ 2001ء میں عابد علی نے مصنف حسن نثار کی سیریل ’’ہوا پہ رقص‘‘ کی ہدایات دیں، جس میں فلم اسٹار معمر رانا کو ٹی وی پر پہلی مرتبہ متعارف کروایا گیا۔ ان کی ہدایات میں بننے والی پہلی سیریل ’’دشت‘‘ تھی جو اپنے وقت کی سپرہٹ سیریل قرار پائی۔نصرت ٹھاکر کی سیریل غلام گردش 1998ء، غریب شہر 1999ء اینٹی نارکوٹکس کے تعاون سے تیار کی جانے والی سیریل انکار 2000ء جب جب پھول کھلے 2002ء کے علاوہ نجی چینلز کی ڈراما سیریلز سہیلی 2007ء کیسی دیوانگی، آنکھ بھر آسمان، مہندی 2003ء، صاحبہ 1992ء ماں اور مامتا، بیٹیاں، تھوڑا تھوڑا پیار، ماسی اور ملکہ، تم کہاں ہم کہاں، مورت، احساس، دنیا، برنس روڈ کی نیلوفر، امر بیل سمیت بے شمار ڈراما سیریلز ان کے فنی کیریئر کا حصہ ہیں۔ ان دنوں جیو انٹرٹینمنٹ چینل سے ان کی دو ڈراماسیریلز ’’میرا رب وارث‘‘ اور ’’رمز عشق‘‘ آن ایئر ہیں۔
عابد علی نے ٹیلی ویژن کے ساتھ فلموں میں بھی اپنے فنی سفر کو جاری رکھا اور ان گنت فلموں میں اپنے فن کے جوہر سے شائقین کے دل جیت لیے۔ ان کی پہلی فلم خاک اور خون 1979ء میں ریلیز ہوئی، جب کہ سونے کی تلاش، ساتھی، آزمائش، گمنام، لیڈر، انسانیت کے دشمن، نگاہیں، عاشقی، کالے چور، سخی بادشاہ، چاہت، کرائے کے گوریلے، اگر تم نہ ہوتے، کالے بادل، موسیٰ خان، لیلیٰ، صاحبہ، بے تاب، فتح، نگینہ، اللہ رکھی اور وطن کے رکھوالے قابل ذکر ہیں، جب کہ 2009ء میں بالی وڈ کی ایک فلم مسٹر بھٹی آن چھٹی میں بھی جلوہ گر ہوئے۔ ان دنوں ان نئی فلم ’’ ہیر مان جا‘‘ سنیما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔
دھیمے لہجہ میں گفتگو ان کی سحر انگیز شخصیت کا نمایاں پہلو تھا، وہ نہ صرف خوش شکل تھے بلکہ خوش لباس اور خوش گفتاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ اپنی ان ہی خوبیوں کی بدولت ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنالیتے تھے۔عابد علی کو سات مرتبہ پی ٹی وی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا. تاہم ان کے حصے میں دو پی ٹی وی ایوارڈزآئے۔ 1982ء میں آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس پر لانگ پلے زندگی بندگی میں بہترین اداکار کا پی ٹی وی ایوارڈ حاصل کیا، جب کہ 1985ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا ۔ علاوہ ازیں وہ لکس اسٹائل کے بہترین اداکار کے ایوارڈ کے علاوہ متعدد اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔عابد علی ایک فن کار گھرانے کے سربراہ بھی تھے، انہوں نے اپنی پہلی سیریل جھوک سیال کی ریکارڈنگ کے دوران ہی سیریل کی فن کارہ حمیرا چوہدری سے شادی کی، جن سے ان کی تین بیٹیاں ایمان علی، راحمہ علی اور مریم علی ہیں۔ تینوں صاحبزادیاں شوبز سے وابستہ ہیں۔ ایمان علی پاکستان کی سپر ماڈل ہیں، جب کہ چند فلموں اور ان گنت ڈراموں میں نمایاں کردارنگاری کرچکی ہیں، جن میں پہلا پیار، فلم بول، خدا کے لیے، ٹچ بٹن، سیریل دل دے کر جائیں گے، عشق محبت قابل ذکر ہیں۔ عابد علی نے طویل رفاقت کے بعد حمیرا علی کو طلاق دے دی اور بعد ازاں 2006ء میں انہوں نے کراچی ٹی وی کی سینئر فن کارہ رابعہ نورین سے شادی کی۔
گو کہ عابد علی اب ہم میں نہیں رہے، لیکن اپنے بے مثال فن اور خدادا صلاحیتوں کے باعث وہ ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی، وہ ایک مکمل اداکار تھے۔ ان کی 50؍ سالہ کارکردگی ان کی فن سے محبت کا بین ثبوت ہے۔