• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھی زبان کے منفرد افسانہ نگار و شاعر ’بیرسٹر نادر بیگ مرزا‘

سندھی افسانوی ادب کی تاریخ میں جن ادیبوں نے اپنی تخلیقات سے اہم مقام حاصل کیا ان میں غلام حسین قریشی، سید میراں محمد شاہ اول، سادھو ہیرانند، بولچند، لعل چند امر ڈنومل، کاکو بھیرومل، لطف اللہ بدوی، امر لعل ہنگورانی، غلام محمد شاہوانی، دلدار حسین موسوی،عثمان علی انصاری، نارائن داس ملکانی اور نادر بیگ مرزا شامل ہیں۔ نادر بیگ مرزا افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور پیشے کے لحاظ سے قانون دان بھی تھے۔ ان کے والدشمس العلماء مرزا قلیچ بیگ سندھی ادب کے معمار وں میں سے ایک تھے۔ نادر بیگ مرزا 16 مارچ 1891ء کوسندھ کے شہر کوٹری میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد مرزا قلیچ بیگ مختیارکار کے عہدے پر تعینات تھے۔ ابتدائی تعلیم کوٹری، حیدرآباد اور کراچی کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔1906ء میں جب ان کی عمر پندرہ برس تھی حصول تعلیم کے لیےلندن روانہ ہوئے۔1912ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کرکے سندھ واپس لوٹے اور لاڑکانہ میں وکالت کرنے لگے۔ بعد میں جوڈیشل سروس میں شمولیت اختیار کی اورسندھ کے مختلف شہروں میں مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔

لندن کے سفر نے ان کے خیالات میں وسعت اور مشاہدے میں گیرائی پیدا کر دی تھی جس کی جھلک ان کی تحریروں میںجا بجا نظر آتی ہے۔ انہیں ادبی ذوق اپنے والد مرزا قلیچ بیگ سے وراثت میں ملا۔ نادر بیگ مرزا سندھی افسانے کے معماروں میں شمار ہوتےہیں۔ وہ سندھی افسانے میں سماجی حقیقت نگاری کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے ہم عصروں امر لعل ہنگورانی، آسانند مامتورا اور عثمان علی انصاری سے مل کر سندھی افسانے کو معاشرتی حقائق اور آس پاس کی دنیا کی عکاسی کرنا سکھایا۔ ہر چند انہوں نے زیادہ تعداد میں افسانے نہیں لکھے لیکن ان کی تخلیقات اپنا ایک حلقۂ اثر ضرور رکھتی ہیں۔ ان کے زیادہ تر افسانے بولچند کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ادبی جریدے ’’سندھو‘‘ میں شائع ہوتے تھے۔

نادر بیگ کے افسانوں کا ایک مختصر مجموعہ ان کے بھتیجے، براڈکاسٹراور شاعر نصیر مرزا نے مرتب کر کے1991ء میں انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی جامشورو سے شائع کرایا، جس میں ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست بھی دی گئی ہے جس سے ان کے ایک ناول دل کشا کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔ وہ سندھی افسانوی ادب کے ابتدائی دور کے افسانہ نگاروں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں طنز کی تیکھی چبھن محسوس ہوتی ہے۔ ان کے بعض ابتدائی افسانوں میں منشی پریم چند اور سدرشن کے اثرات نمایاںدیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں زیادہ تر ہندو اور کہیں کہیں پارسی معاشرے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں میں اچھوت، مس رستم جی، موہنی جی ڈائری، عینک کی آواز، پاک محبت اور بھاوج نمایاں ترین افسانے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں دلکشا (ناول)، محبوبِ کربلا، دیوانِ نادر بیگ مرزا، پھاکن جی حکمت اور نادر بیگ مرزا جوں کہانیوں شامل ہیں۔نادر بیگ مرزا افسانہ نگاری کے علاوہ انگریزی میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ تھیوسوفیکل سوسائٹی کے ممبر تھے، نقاشی، ڈرائنگ، موسیقی اور راگ کا ذوق بھی رکھتے تھے۔نادر بیگ مرزا 3 فروری 1940ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ ٹنڈو ٹھوڑو (حیدرآباد) میں واقع آبائی قبرستان بلند شاہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

تازہ ترین