• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جہاز ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن سے جرمنی کے شہر کولون جارہا تھا۔جہاز کی دوسری لائن میں ایک طرف حسن رضا ،اعجاز حسین پیارااور تنویر حسین ملک کی نشستیں تھیں ۔درمیان میںگزرنے کی جگہ تھی اور اس کے بعدقاسم خان سوری اور پھرمیر ی نشست تھی ۔اچانک دیکھا کہ درمیان والی جگہ پر ایک چھوٹی سی دکان کھل گئی ہے ۔ایئر ہوسٹس اپنا موونگ اسٹور کھڑا کرکےچیزیں بیچ رہی ہے۔قاسم خان سوری نے حیرت سے دیکھا اور پوچھا ۔’’یہ کیا ہو رہا ہے‘‘۔حسن رضا نے ایئرہوسٹس سے پانی مانگا تو اُس نے 2یورو کا مطالبہ کیایعنی پانی کا ایک گلاس ساڑھے تین سو روپے میں۔تنویر ملک نے حیرت سے پوچھا کہ ’’یہ ایئر لائن پینے کا پانی بھی نہیں دیتی ‘‘۔قاسم خان سوری بولے ۔’’ایسا تو یار ہمارے ہاں بسوں میں بھی نہیں ہوتا ‘‘۔اعجاز پیارے نے خاموشی توڑی اور کہنے لگا۔’’یہ سستے ٹکٹوں والی ایئرلائنز ہیں ۔ان کا ٹکٹ چالیس پچاس یورو کا ہوتا ہے ۔اب اتنی رقم میں یہ لنچ یا ڈنر فراہم کرنے سے تو رہے ۔پھر یہ چھوٹی موٹی چیزیں بھی بیچتے ہیں ۔سگریٹ سے لے کرکانوں میں پہننے والے بندوں تک۔آپ یہ نہیں دیکھتے کہ ان جہازوں میں کوئی فرسٹ یا بزنس کلاس ہے ہی نہیں ۔یہ عوامی ایئرلائنز ہیں ‘‘۔قاسم خان سوری بولے ۔’’ ہمیں عمران خان کی طرف سے اکانومی کلاس میں سفر کرنے کی ہدایت ہے ۔ویسے کم ازکم جہاز میںتو ایک ہی کلاس ہونی چاہئے ۔آسمان تو سب کےلئے برابر ہے۔‘‘۔ میں نے کہا ’’ زمین بھی سب کےلئے برابر ہے ،ساری قبریں ایک جتنی ہوتی ہیں ‘‘۔

کولون پہنچے تو چوہدری مظہراقبال دیونہ اپنی ٹیم کے ساتھ استقبال کےلئے موجود تھے ۔ یہاں ہم نے کشمیر کانفرنس میں شریک ہونا تھا۔کولون میں ہماری گاڑی دریائے رائن کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔کہیں کچھ پڑھا ہوا یاد آیا توپوچھا ۔اس دریا پر کوئی ’’محبت کے تالوں والا پل ‘‘بھی ہے ۔ دیونہ صاحب بولے ۔ ’’یہ ساتھ ہے ‘‘ اور پھرایک پل کے قریب کار روک دی گئی ۔ عجیب و غریب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا ۔پل کے درمیان پر لوہے کی جالی دارریلنگ تھی جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی تھی اس ریلنگ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں تالے لگے ہوئے تھے ۔اہل ِ محبت پل سے گزر رہے ہیں ۔ہم بھی اُن میں شامل ہو گئے ۔مغرب میں یہ لازوال محبت کی علامت کے طور پر پہچانا جاتاہے۔ پریمی چوڑے آتے ہیں ۔ اپنی محبت کا تالہ لگا تے ہیں اورچابی دریا میں پھینک دیتے ہیں کہ اب یہ تالہ کبھی نہیں کھل سکتا ۔ہم کبھی جدا نہیں ہو سکتے ۔ ان تالوں پرکہیں دل بنے ہوئے تھے تو کہیں پریمیوں کے اپنےنام کندا تھے ۔تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس پل پر ان تالوں کے پیچھے کوئی داستان کوئی متھ موجود نہیں ۔یونہی محبت کی یہ علامت ظاہر ہوئی اوردنیا میں پھیلتی رہی ہے ۔جوڑے اپنے ساتھ محبت کے تالے بنوا کر لاتے ہیں ۔لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔صرف جرمنی میں نہیں ۔لازوال محبت کی یہ علامت پیرس ، ماسکو ، لندن ،لیڈز اور دوسرے شہروں دریائوں کے پلوں پر جاگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔پیرس میں جب حکومت نے دریائے سین کے ایک پل سے یہ تالے اتارے تو محبت کرنے والوں نے اس پر باقاعدہ احتجاج کیاتھا۔

لیاقت علی شادنے وہیں یہ واقعہ بھی سنایا کہ اپوزیشن کی دو پارٹیوں کے درمیان جب مل کر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا معاہدہ ہوا تو دونوں کے لیڈر اسی پل پر آئے ۔مل کر ایک تالہ لگایا اور چابی دریا میں پھینک دی ۔ان کی محبت اتنی بڑھی کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے میں ضم ہو گئیں ۔میں سوچنے لگا اگر راوی کے پل پر تالے لگانے کی روایت قائم ہوتی تو وہاں نواز شریف اور آصف علی زرداری مل کر ہیروں سے جڑا ہواسونے کاتالہ لگاتے اور چابی دریا میں پھینک دیتے ۔تالہ لگانے کی باقاعدہ تقریب ہوتی ۔ تالے کی اخبارات میں بڑی بڑی تصویریں شائع ہوتیں ۔اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے اہم تالہ قرار دیا جاتا ۔ویسے مستقبل میں سچ مچ بلاول بھٹو اور مریم نواز مل کر کسی ایسی تقریب کا اہتمام کر بھی سکتے ہیں۔ وہ تالہ لگا کر چابی دریا میں پھینکتے ہوئے اچھے بھی لگیں گے۔

کہاں سے چلا تھا اور کہاں آگیا ہوں۔ خیر کولون سے ہم ڈوزلز ڈوف پہنچے۔ جہاں تقریب تھی۔ ہال میں کوئی پچاس میزیں لگی ہوئی تھیں۔ پانچ سو آدمیوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ سب سے حیران کن چیز ہر میز پر پڑا ہوافروٹ تھا۔ ہر میز پر فروٹ اتنی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کہ دور سے دیکھ کر کھانے کو جی چاہتا تھا ۔مظہر اقبال دیونہ جرمنی کے بڑے بزنس مین ہیںؒ۔ انہوں نے فنکشن پر بھی دل کھول کر خرچ کیا تھا۔ جہاز میں پانی کا گلاس خریدنے سے لے کر اس تقریب تک ایک تفاوت ہی تفاوت تھا۔ یہی تفاوت سرمایہ دارانہ نظام کی خوبصورتی بھی ہے اور خرابی بھی۔

جرمنی سےہم نے اسپین کے شہر بارسلونا کےلئے پرواز کی ۔اس جہاز میں شاید اس لئےدکان نہیں تھی کہ اس کے ٹکٹ مظہر اقبال دیونہ نے خریدے تھے ۔ایئر پورٹ پر سلیم لنگڑیال اپنے تمام ساتھیوں سمیت استقبال کےلئے موجود تھا ۔رات کو کشمیر میں بھارتی ظلم پر سیمینار تھا ۔اگلی صبح قاسم خان سوری کے اعزاز میں بارسلونا کےپاکستانی قونصلر عمران چوہدری نے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔ڈپٹی اسپیکر نے پاکستانی قونصلیٹ کا بھی دورہ کیا ۔لوگوں سے بھی ملے ۔اُن کے مسائل بھی سنے ۔یورپ میں پاکستانی امبیسی کی کارکردگی سب سے زیادہ بہتر بارسلونا میں نظر آئی۔ کاش ہر ملک میں عمران چوہدری جیسے پاکستانی سفارت کار ہوتے۔ برلن کے سفارت خانے کے حالات خاصےخراب تھے ۔ وہاں کے پاکستانی سفیرکا شاید تبادلہ ہوچکا ہے مگر کئی ماہ سے چونکہ نیا سفیر نہیں بھیجا گیا اس لئے چارج اسی کے پاس ہے۔ عمران خان کو فوری طور پر وہاں نیا سفیر بھیجنا چاہئے۔ حکومت کی کارکردگی بڑی آہستہ مزاج ہے۔ رفتار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین