• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رزقِ حلال کمانے کیلئے کام کی نوعیت نہیں، صرف کام دیکھا

بات چیت: شفق رفیع

عکّاسی: اسرائیل انصاری

’’ بلڈنگ میں قائم جس ہوٹل میں، مَیں کام کرتا تھا، وہاں ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ بھی تھا۔ اپنے ہم عُمر نوجوانوں کو کمر پہ بستہ ڈالے، صاف سُتھرے کپڑوں میں ملبوس، بے فکر ہنستا کھیلتا، مذاق کرتا ، خُوش حال اور زندگی کو پوری طرح انجوائے کرتےدیکھتا، تو بہت ڈیپریشن ہوتا کہ ذہین، پڑھائی میں اچھا ہونے کے با وجود مَیں کبھی آلو کی بوری، تو کبھی تیل کا کنستر اُٹھا رہا ہوں، کپڑے میلے ہیں، آگے پڑھائی کر سکتا ہوں اور نہ ہی ملازمت چھوڑ سکتا ہوں۔اُس وقت میرے پاس کچھ نہیں تھا، سوائے اس اُمّید کے کہ یہ وقت بدل جائے گا، یہ صرف میری زندگی کی کتاب کا ایک باب ہے، پوری کتاب نہیں۔آج مجھ سے ملنے، میرے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے لوگ بے تاب رہتے ہیں، میری ویڈیوز کے ہزاروں فالورز ہیں، لیکن ایک وقت وہ بھی تھا، جب مَیں اپنے دوستوں کی گاڑی میں اپنے پیسوں سے سی این جی ڈلواتا تھا کہ ’’یار! میرا شو دیکھنے آجاؤ‘‘ یا صرف ایک ہاٹ ڈاگ اور کولڈ ڈرنک کے عوض پرفارم کرنے کے لیے تیار ہوجاتا تھا۔‘‘ یہ الفاط ہیں نسلِ نو میں بے حدمقبول، اپنے منفرد انداز میں سماجی مسائل اُجاگر کرنے والے ، لوگوں میں شعور و آگہی بیدار کرنے والے اور خلّی ولّی، گنجی سویگ کے نام سے پہچان بنانے والے یوٹیوبر، کامیڈین جنید اکرم کے، جن کی زندگی مشکلات، جدّو جہد اور سخت محنت سے عبارت ہے۔ جنید کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے، جو گراس رُوٹ لیول سے اوپر آئے، مگر شُہرت کی چکا چوند اُن کی سادگی پر اثر انداز نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ 2016ء میں شادی کے بندھن میں بندھنے کے باوجود دیگر سلیبریٹیز کے بر عکس وہ اپنی شریکِ حیات کو دنیا کے سامنے نہیں لائے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کی بیوی لوگوں کے کسی بھی قسم کے کمنٹس کا سامنا کریں، جنید اس مقام تک کیسے پہنچے، یوٹیوبرز کس طرح پیسا کماتے ہیں، یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات ہیں، جن کے لیے آج ہم جنگ،’’ سنڈے میگزین ‘‘کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی، اَن کہی‘‘ میں آپ کی ملاقات کروارہے ہیں، جنید اکرم سے۔

رزقِ حلال کمانے کیلئے کام کی نوعیت نہیں، صرف کام دیکھا
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:خاندان،بھائی، بہن اور ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرے آباؤاجدادکا تعلق لدھیانہ، بھارت سے ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی کے اولڈ ایریا،رام سوامی میں آبسےاور میری پیدائش بھی وہیں ہوئی۔ہم آدھی درجن بہن بھائی ہیں، (مخصوص انداز میں زور دار قہقہہ لگایا)تین بھائی اور تین بہنیں، میرا نمبر چوتھا ہے۔ویسے میں پنجابی ہوں، لیکن پیدائش، تعلیم و تربیت کراچی میں ہوئی، اس لیے میرا لہجہ، انداز کراچی والا ہے، بلکہ کچھ لوگ مجھے دہلی والا بھی سمجھتے ہیں۔ اسکولنگ، ناصرہ پبلک اسکول سے ہوئی اور انٹر گورنمنٹ کالج فار مین ، ناظم آباد سے کیا۔ والدہ گھریلو خاتون ہیں اور والد ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔

س: تعلیم کہاں تک حاصل کی؟

ج: مَیں گریجویٹ ہوں۔ ویسے میرے گریجویشن کے پیچھے بڑی دل چسپ کہانی ہے۔ یہ مشرّف دَور کی بات ہے، جب انہوں نے الیکشن لڑنے کے لیے گریجویشن کی شرط عاید کی، تو مجھے خیال آیا کہ اب مجھے بھی گریجویشن کر ہی لینا چاہیے، کیوں کہ مَیں اس بات کا قائل ہوں ، بلکہ سابق امریکی صدر، اوباما نے بھی ایک بات کہی تھی کہ ’’ہمیشہ خود کو ہرقِسم کے حالات اور موقعے کے لیے تیار رکھو، ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری زندگی کب کون سا موڑ لے لے۔‘‘ اس لیے مَیں نے سوچا کہ کیا پتا مستقبل میں مجھے الیکشن لڑنے کا موقع مل جائے اور مَیں محض انڈر گریجویٹ ہونے کی وجہ سے محروم رہ جاؤں، توپھر مَیں نے پرائیویٹ بی اے کیا۔

س: کامیڈین بننے کا خیال کیسے آیا؟
ج:
humor rins in our family،چوں کہ میرا تعلق ایک مِڈل کلاس فیملی سے ہے، تو ہمارا گھر بہت بڑا نہیں تھا۔بہن بھائی زیادہ تھے اور گھر چھوٹا، تو سب ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا رہتے، گھر میں ہنسی مذاق کا طوفان بپا ہوتا۔ نہ صرف مَیں اور میرے بہن بھائی، بلکہ میرے کزنز بھی خاصےحاضر جواب اور بذلہ سنج ہیں۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ اپنی پوری فیملی میں سب سے کم حسِ مزاح مجھ میں ہے۔بہر حال، کامیڈین بننے کا خیال نہیں آیا ، بلکہ یہ حِس مجھے وَراثت میں ملی ہے۔ میرے دوست اکثر کہا کرتے تھے کہ تمہارا سینس آف ہیومر بہت اچھا ہے، تمہیں اسی فیلڈ میں کیریئر بنانا چاہیے، لیکن مَیں ہمیشہ یہی کہتا کہ ’’چائے کے ہوٹل پر چار دوستوں کو ہنسانا الگ بات ہے اور آرٹس کاؤنسل میں یا اسٹیج پر بارہ ہزار لوگوں کو اینٹرٹین کرنا الگ بات۔‘‘ لیکن میری زندگی کسی فلم سے کم نہیں۔ جس طرح ہر فلم میں ہیرو کے ساتھ ایک سائیڈ ہیرو ضرور ہوتا ہے، جس کا کام ہیرو کی حوصلہ افزائی کرنا، اُس کی ہمّت بندھانا ہوتا ہے، جیسے امیتابھ بچّن کی فلمز میں قادر خان ہوتے تھے، تو ویسے ہی میری زندگی کے ’’قادر خان‘‘ میرے ایک دوست فرحان مجید ہیں، جنہوں نے مجھے کامیڈی کو بہ طور پروفیشن اپنانے کی نہ صرف ترغیب دی، بلکہ میرے انکار کرنے پر ایک روز طویل لیکچر بھی دیا۔اور پھر مَیں نے2008-09ء میں انگریزی زبان میں اسٹینڈ اَپ کامیڈی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ پھر کچھ عرصے بعد کسی نے مشورہ دیا کہ یو ٹیوب پر اپنی ویڈیوز اَپ لوڈ کرو تاکہ تمہارا کام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ تو ہم نے 2012ء میں مذاق مذاق میں ویڈیوز بنانا شروع کیں۔ اُسی زمانے میں گلوبلی کامیڈی ویڈیوز کا ایک ٹرینڈ چل رہا تھا، ایک مقبول ویڈیو سامنے آئی، ’’What black girl thinks or says, What white girl thinks, What Chinese girl says‘‘ یعنی کسی مخصوص صُورتِ حال میں انگریز لڑکی کیا کہتی ہے یا چینی لڑکیوں کا کیا ردّ ِعمل ہوتا ہے وغیرہ۔تو بینا شاہ نے، جو ایک بہت اچھی لکھاری ہیں،ٹویٹ کیا کہ میری بڑی خواہش ہے کہ کوئی اس کا پاکستانی ورژن بھی بنائے۔ مَیں نے سوچا یہ تو بہت اچھا آئیڈیا ہے، پھر ایک دوست سے مشورہ کیا اورہم دونوں نے مل کر اُس کا پاکستانی ورژن بنایا، جس میں، مَیں لڑکی بناتھا، مَیں نے چُھپ کرایک وِگ خریدی اور دوست خاموشی سےاپنی امّی کا دوپٹّا لے آیا۔ یہ کام ہمیں چُھپ کر اس لیے کرنا پڑا، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں آرٹ یا آرٹسٹ کو کچھ خاص عزّت نہیں دی جاتی۔ خیر، پھر ہم نے اپارٹمنٹ کی چھت پر ایک ویڈیو ریکارڈ کر کے اَپ لوڈ کردی کہ چلو دو، تین ہزار لوگ دیکھیں گے، کچھ لائیکس اور کمنٹس آجائیں گے۔ اگلی صبح جب ہم اُٹھے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُس پر ساٹھ ہزار ویوز تھے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں، وہاں سے کمنٹس آنے شروع ہوگئے اور لوگوں نے ہمارے کام کی خُوب پذیرائی کی۔ ویسے جب مَیں اسٹینڈ اَپ کامیڈی کرتا تھا، تو ایک پروڈیوسر نے مجھ سے کہا کہ’’ اگر تمہیں اپنے مُلک میں نام کمانا اور اپنی پہچان بنانی ہے، تو اُردو میں کام کرو۔ انگریزی کی وجہ سے تمہارا کام صرف کلفٹن، ڈیفینس کی آڈیئینس تک محدود ہوکر رہ جائے گا، جب کہ اُردو زبان تمہیں مُلک کے گھر گھر تک پہنچا دے گی۔‘‘ سو، اُن کی بات مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے مَیں نے اُردو کانٹینٹ بنانا شروع کردیا۔

س: انگریزی زبان میں اسٹینڈ اَپ کامیڈی کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی؟

ج: جس زمانے میں ، مَیں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، اُس وقت پاکستان کے حالات کافی خراب تھے۔مُلک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، مجھے شدّت سے احساس ہوتا تھا کہ کچھ ایسا کرنا چاہیے جس سے پاکستان کا امیج اور نام عالمی سطح پر روشن ہو۔ اس لیے مَیں نے لوگوں کو ہنسانے کے لیے اُس زبان کا سہارا لیا، جو عالمی سطح پر سمجھی اور بولی جاتی ہے، کیوں کہ اگر مَیں اُردو زبان میں کامیڈی کرتا، تو وہ زیادہ سے زیادہ پاکستان، بھارت یا بنگلہ دیش وغیرہ ہی میں سمجھی جاتی ، جب کہ مَیں اپنے آرٹ کے ذریعے پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت چہرہ اُجاگر کرنا چاہتا تھا۔

س: ہمارا تعلیمی نظام اتنا خراب ہے کہ کئی ماسٹرز بھی انگریزی زبان میں درخواست تک لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں، آپ کی انگریزی اتنی اچھی کیسے ہوئی کہ اُس کے سہارے کیریئر کا آغاز کر لیا؟

ج: وہ کہتے ہیں ناں، ’’ You are what you eat‘‘ ،تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ مجھے بچپن سے انگریزی زبان میں شوز،کوئز شوز، فلمز دیکھنے، گانے سُننے کا شوق تھا۔ اب اُس زمانے میں کیبلز تو تھے نہیں، مگر پی ٹی وی پر بہت اچھے معلوماتِ عامّہ کے پروگرامز، کوئز شوز وغیرہ آتے تھے،تو وہ مَیں بہت شوق سے دیکھتا تھا، پھر کیبل اور ڈی وی ڈی کا دَور آگیا۔ یہاں مَیں اپنے نوجوان دوستوں کو یہ بتانا چاہوں گا کہ کیبل کی وجہ سے ہمیں بھی ہر قِسم کے چینلز دیکھنےکی آزادی میّسر تھی، لیکن مَیں نے ایسے چینلز کا انتخاب کیا، جن سے میری معلومات میں اضافہ ہو، کچھ سیکھ سکوں، نیشنل جیوگرافِک، ڈِسکوری چینلز بہت شوق سےدیکھتا تھا۔ انگریزی فلمز ،سب ٹائٹلز کے ساتھ دیکھتا تاکہ جملے بنانے سیکھ سکوں، ساتھ ایک ڈائری لے کر بیٹھتا ، فلم کے دَوران بولے جانے والےمشکل الفاظ ، اُس ڈائری میں نوٹ کرتا جاتا اور بعد میں انگریزی لُغت سے اُس کے معنی دیکھتا تھا۔اور یہ آزمودہ نسخہ ہے کہ اگر کوئی لفظ آپ ایک ہفتے تک اپنی بول چال میں استعمال کریں، تو وہ ساری زندگی کے لیے آپ کی زبان کا حصّہ بن جاتا ہے۔ سو، بچپن کی ایک اچھی عادت سے آج تک استفادہ کر رہا ہوں۔اور مَیں اپنے سامعین سے بھی یہی کہتا ہوں کہ اپنا مشاہدہ وسیع کریں، کوئی انوکھی چیز دیکھیں تو اُس سے متعلق کھوج لگائیں۔ مَیں جو معلومات آپ تک پہنچاتا ہوں، وہ زیادہ ترانٹرنیٹ ہی سے حاصل کرتا ہوں۔ کتابیں تو مَیں نےاب پڑھنی شروع کی ہیں، کیوں کہ میرے پاس پیسے ہوتے تھے، نہ وقت ۔ اس وقت یوٹیوب دنیا کی سب سے بڑی پریکٹیکل یونی وَرسٹی ہے، جہاں آپ کو آملیٹ سے لے کر جہاز بنانے تک سب کچھ سکھایا جاتا ہے، بس اپنا فوکس درست رکھیں، انٹرنیٹ، جدید ٹیکنالوجی سے بھر پورفائدہ اُٹھائیں۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج: میرا بچپن بہت کٹھن تھا(قدرے مغموم لہجے میں، مگرمسکراتے ہوئےبولے)۔ بہن بھائی زیادہ، آمدنی کم ، اسکول ، وین فیس میں تاخیر معمول تھا۔ مَیں بچّہ تھا، پھر بھی لوگوں سے چُھپ چُھپ کر، ڈر سہم کر چلتا کہ کہیں کوئی پیسوں کا تقاضا نہ کرلے۔اپنے ہم عُمر دیگر بچّوں کی طرح پتنگ بھی اُڑائی، کرکٹ بھی کھیلی، مگر کچھ زیادہ اچھے دن یاد نہیں ۔ ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ بُرا وقت بھول جاتا ہےاور اچھا وقت یاد رکھتا ہے۔ مَیں بھی ماضی میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ البتہ، مجھے اپنا کالج ٹائم بہت اچھی طرح یاد ہے، ہم پانچ دوست تھےاور باقاعدگی سے کلاسز لیتے تھے، مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک ڈیپریشن مجھے یہ بھی ہوتا تھا کہ میرے سارے دوست اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک چلے گئے اور مَیں یہاں پلیٹیں دھو رہا ہوں۔

س:زندگی کی پہلی کمائی کب اور کتنی تھی؟

ج: مَیں نے بہت کم عُمری سے کمانا شروع کر دیا تھا۔ مِڈل کلاس فیملی کے مسائل کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں، ہماری فیملی بڑی تھی، ظاہر ہے گھر کو سپورٹ کرنا تھا، معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے، لہٰذا مَیں نے زمانۂ طالب علمی ہی سے ٹیوشنز پڑھانی شروع کردی تھیں ۔ میرا خیال ہے کہ 98ء یا 99ء میں پہلی ٹیوشن پڑھائی تھی اوردو بچّوں کے ماہانہ 800روپے ملتے تھے۔ جب انٹر کیا تو سوچا، کیوں نہ کہیں ملازمت کرلی جائے، تو گلشن میں ایک ریستوران میں ملازمت کرلی۔ مَیں قارئین بالخصوص نسلِ نو کو بتانا چاہوں گا کہ جس ریستوران میں مَیں کام کرتا تھا، وہاں مَیں سب سے چھوٹا تھا۔ دیگر ویٹرز مجھے بہت تنگ ، پریشان کرتے ، اُن کا رویّہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تھا، مَیں روتا تھا، مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں، تب میرے ایک انکل نے، جو وہاں مینیجر بھی تھے،مجھ سے کہا ’’ کام چھوڑ کے جانا بہت آسان ہے اور دوسری بات یہ کہ اس وقت نوکری چھوڑنا تم افورڈ بھی نہیں کر سکتے کہ گھریلو حالات اس کی اجازت نہیں دیتے اور اگر تم ان لوگوں کو پلٹ کر جواب دو گے، تو تم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا؟ لہٰذا میری ایک بات پلّے باندھ لو کہ ہمیشہ اپنے بد خواہوں کو اپنے کام کی مار مارو۔‘‘ اس طرح اٹھارہ سال کی عُمر میں ، مَیں نے زندگی کا سب سے بڑا سبق حاصل کرلیا۔ مَیں ایک برائٹ اسٹوڈنٹ تھا، میرا بھی خواب تھا کہ انٹر کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح یونی وَر سٹی میں داخلہ لوں، لیکن اُس وقت مَیں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا تھا، تو مَیں نے بیرا گیری بھی کی، کیش کاؤنٹر پر بھی کام کیا، بہ طور گیسٹ ریلیشن آفیسر بھی کام کیا،مطلب ہر قِسم کی ملازمت کی۔ حلال کمائی کے لیے کام کی نوعیت نہیں ،صرف کام دیکھا۔

س: آج پیسا خرچ کرتے ہوئے سوچتے ہیں؟

ج: الحمدُ للہ! اب شاپنگ کرنے یا پیسے خرچ کرنے سے پہلے سوچنا نہیں پڑتا۔ کسی بھی برانڈ کے اسٹور جا کر یہ سوچ کرپرائس ٹیگ نہیں دیکھتا کہ قوّتِ خرید سے باہر تو نہیں ہوگا۔ اور ویسے بھی میری ایک بہت بُری عادت ہے کہ مَیں بچت نہیں کرتا، جو چیز اچھی لگے ، فوراً لے لیتا ہوں، نہ میرا اپنا گھر ہے اور نہ ہی کوئی بینک بیلنس۔ مَیں اپنا دل مار کے پراپرٹیز اور بینک بیلنس بناؤں اور میرے مرنے کے بعد بچّے اُس کے پیچھےدنگا فساد کریں، ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھیں، تو یہ مَیں نہیں چاہتا۔

س: یو اے ای جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا جانے سے پہلے آپ فیلڈ میں آچکے تھے؟

ج: یو اے ای جانے سے قبل میری دو، تین ویڈیوز آچکی تھیں، لیکن اُس وقت مجھ پر گھر کی ، بہنوں کی شادی کی ذمّے داری تھی، اس لیے مَیں کوئی رِسک نہیں لے سکتا تھا۔ سو، ایک میڈیکل فرم میں میڈیکل ٹرانسکرپشن کا کام کر رہا تھا، جس میں امریکی اسپتالوں کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور میری تَن خواہ بھی معقول تھی۔جاب مجھے کسی ڈگری کی وجہ سے نہیں، انگریزی زبان کی وجہ سے ملی تھی۔خیر،جب میری آخری بہن کی شادی ہوئی، تو مَیں نےسوچا، اب مجھے اپنے لیے جینا چاہیےاور یو اے ای چلا گیا۔ وہاں پہلے ہی ہفتے مجھے سیلز مین کی ملازمت مِل گئی اور ساتھ ہی انگریزی میں اسٹینڈ اَپ کامیڈی بھی کر رہا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد مجھے خیال آیا کہ میری اچھی خاصی فین بیس بن گئی تھی، تو مجھے دوبارہ سے وہی سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ مجھ میں ویڈیو میکنگ اِسکلز نہیں تھیں، ایڈیٹنگ نہیں جانتا تھا۔جب تک پاکستان میں تھا، تو دوست یہ سب کام کر دیتے تھے۔پھر وہاں مَیں نے اسمارٹ فون خریدا اور وَن ٹیک میں ویڈیوز بناکر اَپ لوڈ کرنی شروع کیں، جن پہ بہت اچھا فیڈ بیک آیا، تھوڑی پہچان بنی، تو برانڈز نے پروموشن کے لیے رابطہ کرنا شروع کیا،پیسے ملنے لگےتو مجھے احساس ہوا کہ اس کام میں تو بہت پیسا ہے اور مجھے اسی فیلڈ میں آگے بڑھنا چاہیے۔ بس، پھر مَیں نے دبئی کی نوکری چھوڑی اور پاکستان آگیا۔

س: زندگی کا یاد گار لمحہ کون سا ہے؟

ج: 2015-16ء میں ،جب مَیں دبئی میں تھا، توایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری جاب رہی ، نہ گھراور مَیں گاڑی میں سوتا تھا۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ اُن دنوں میری زیادہ تر ویڈیوز گاڑی میں ہوتی تھیں، کیوں کہ مَیں گاڑی ہی میں رہتا تھا۔دوسری جانب جب مَیں اپنے دوستوں کو دیکھتا تو کوئی امریکا ، برطانیہ، تو کوئی کسی اور جگہ اچھی زندگی گزار رہا تھا، تو خود پر افسوس ہوتا ، لیکن جب میری ویڈیوز پر لوگوں کے کمنٹس آتےاور کوئی کہتا کہ ’’جنید بھائی! ہمارا دن بہت برا گزر رہا تھا، آپ کی ویڈیو دیکھ کر دل خوش ہوگیا یا آپ کی نصیحت پر عمل کرکے میرا کام بن گیا‘‘ تو یہ میسیجز میری خود اعتمادی میں اضافہ کرتےاور مَیں سوچتا کہ چلو میری وجہ سے کسی کا بھلا ہو رہا ہے۔اور بس، پھرمجھے لوگوں کی خوشی میں خوشی محسوس ہونے لگی۔اور یہی میری زندگی کے یاد گار لمحا ت ہیں۔

س: کیا ویڈیوز بناکے اَپ لوڈ کرنا ہی آپ کی فُل ٹائم جاب ہے؟ اس سے اتنی کمائی ہو جاتی ہے کہ گھر چل سکے؟

ج:بالکل فُل ٹائم جاب ہے۔ اور کمائی بھی الحمدُ للہ ،اچھی خاصی ہوجاتی ہے۔ تاہم، اس میں دو طرح سے کمائی ہوتی ہے، ایک برانڈ اینڈورسمینٹ، جو آپ میری ویڈیوز میں بھی دیکھتے ہیں۔ مختلف برانڈز یو ٹیوبرز سے پروموشن کرواتے ہیں ، جیسے ٹی وی ایڈز میں سلیبرٹیز کرتے ہیں، بالکل ویسے۔ دوسرا طریقہ ، یوٹیوب ویوز(views) کی تعداد ہے، جس کی پیمنٹ یوٹیوب بھیجتا ہے۔ ہمارے مُلک میں ایسے بھی کئی لوگ ہیں، جو ابھی بیس سال کے بھی نہیں ہوئے اور مہینے کے 25لاکھ روپے کما رہے ہیں، کیوں کہ اُن کی ویڈیوز پر نمبر آف ویوز زیادہ ہوتے ہیں۔

س: نام کے ساتھ ’’گنجی سویگ (Ganji swag)لکھنے کا خیال کیسے آیا؟نیز آپ کے تکیہ کلام ’’خلّی ولّی‘‘ کی کیا کہانی ہے؟

ج: مَیں چوں کہ شروع سے گنجا ہوں، تو میرے ایک دوست کی منگیتر مجھے چھیڑنے کے لیے ’’گنجی، گنجی‘‘ کہا کرتی تھی۔ جواباً مَیں اُسے کاؤنٹر کرنے کے لیے کہتا کہ ’’گنجا ہوں تو کیا ہوا،مجھ میں تمہارے منگیتر سے کچھ زیادہ ہی سویگ (style, cool) ہے۔‘‘ اور بس پھر ایسے ہی اچانک اپنےنام کے ساتھ ’’گنجی سویگ‘‘ لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ جہاں تک بات ہے ’’خلّی ولّی‘‘ کی، تو اس کے معنی ہیں، جانے دو یا بات ختم کرو۔ مَیں چوں کہ ایک عرصہ یو اے ای میں رہا ہوں توبس، لا شعوری طور پر ہی یہ الفاظ میری عام بول چال میں شامل ہوگئے۔

س: آپ کے خیال میں پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

ج: ہم غلط کو غلط نہیں سمجھتے، اپنے تئیں آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بے شک رزق دینے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیاہے، لیکن محنت ہمیں خود ہی کرنی ہے، جس مُلک یا شہر میں مارکیٹس ہی بارہ،ایک بجے کُھلتی ہیں، زوال کے وقت سے کام شروع ہوتا ہے، تو کاروبار کو بھی پھر زوال ہی آنا ہے۔ اگر حکومت کی بات کی جائے، تو چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ ابھی معاشی بحران ہے، عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا، لیکن ٹوٹی سڑکوں کی مرمّت تو کر سکتے ہیں،ٹریفک کا نظام تو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔اسکولز ، کالجزکی حالت تو بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کچرا تو اُٹھوا ہی سکتے ہیں۔

س: بہ طور کامیڈین/یو ٹیوبر کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا یا اب بھی کرنا پڑتا ہے؟

ج: ویسے تو بہت سے مسائل ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ نیگیٹیو کمنٹس ہوتے ہیں۔ ہر کسی میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ تنقید، لعن طعن یا طنز برداشت کر سکے۔ حالاں کہ مجھ میں برداشت بہت زیادہ ہے، لیکن اُس کے با وجود کبھی کبھار کچھ ایسے میسجز یا کمنٹس آجاتے ہیں کہ خون کھول اُٹھتاہے، پورا دن ایک چڑچِڑاہٹ کے ساتھ گزرتا ہے۔

س: دوسروں کو ہنسانے والے جنید اکرم، اپنا مائنڈ فریش کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟

ج: کوشش کرتا ہوں کہ اپنی معلومات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کروں کہ میرا مائنڈ تو بس اسی طرح فریش ہوتا ہے۔

تازہ ترین