امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا افغانستان میں امن کی خاطر طالبان سے جاری مذاکرات کا عین اس وقت منسوخ کرنا جب طویل بات چیت کے صبر آزما مراحل کے بعد معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے، دنیا کے ہر امن پسند شہری کیلئے سخت فکرمندی کا باعث ہے۔ طالبان ترجمان نے اپنے ایک بیان میں صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا لیکن اس کے نتیجے میں امریکہ کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان برداشت کرنا ہوگا لیکن ہماری طرف سے بات چیت کے دروازے پھر بھی کھلے رہیں گے۔ اس بیان کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ خوں ریزی کے جن حالیہ واقعات کی وجہ سے صدر ٹرمپ نے مذاکرات منسوخ کیے ایسے واقعات اب افغانستان میں بہت بڑے پیمانے پر ازسرنو شروع ہوجائیں گے۔ یہ صورتحال دنیا کو قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی سے پاک دیکھنے کے خواہاں کسی بھی شخص کیلئے پسندیدہ اور قابل قبول نہیں ہو سکتی اور ایسا ہوا بھی تو بالآخر کچھ وقت گزرنے کے بعد دوبارہ بات چیت ہی سے مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، افغانستان میں امریکہ کا اٹھارہ سالہ تجربہ اور اس خطے کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اس تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ اظہار خیال امید افزاء ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بحالی خارج از امکان نہیں، امید ہے کہ طالبان اپنا رویہ بدلیں گے اور یہ معاملہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوگا۔ اس صورتحال میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بالکل درست طور پر تمام فریقوں کو صبر و تحمل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ بلاشبہ امریکہ، طالبان، اٖفغان حکومت اور خطے کے عوام سب کا مفاد افغانستان میں پائیدار امن کے قیام ہی سے وابستہ ہے لہٰذا تمام فریقوں کو ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کی جلدازجلد بحالی کو یقینی بنانا چاہئے۔