زندگی کی کتاب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مرتب ہو رہی ہے۔ کبھی خوشی، غم، کامیابی و ناکامی، کبھی دوستی یاری، میل جول تو کبھی ناراضی، روٹھنا منانا سب ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ان گزرتے لمحوں میں ہر شخص کسی نہ کسی نئے تجربے سے گزر تا ہے۔ جو ماضی کا حصہ بنے کے ساتھ ہی کبھی خوب صورت تو کبھی تلخ یادیں بن جاتے ہیں۔ اکثر افراد زندگی کے تجربات و مشاہدات، جذبات و احساسات الغرض ہر لمحے کو محفوظ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ دور حاضر میں جب ہر ایک کے ہاتھوں میں موبائل فون بمعہ کیمرہ موجودہ ہونا عام سی بات ہے، ایسے میں ٹیکنالوجی کے مداح یہ کام آج کل عکس بندی کے ذریعے کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں کوئی دلچسپ منظر نگاہوں کے سامنے آئے یا کوئی خاص موقع ہو، یا پھر دوست احباب کے سنگ کھانے کا پروگرام ہو تو کیمرے میں ان لمحوں کو محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ ان تصاویر میں وہ لمحہ تو قید ہوجاتا ہے لیکن اس لمحے میں بسنے والے احساسات، جذبات، خیالات ان تصاویر میں قید ہونے سے قاصر رہتے ہیں، اگر انہیں بھی قید کرنا چاہتے ہیں تو صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ’’ڈائری‘‘ جو یادیں لفظوں کے موتیوں میں پرو کے سمولی جاتی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی ہیں۔ پھر جب یاد ماضی تازہ کرنا ہو تو ماضی کے ان اوراق کو پلٹ کر پڑھ لیا جاتا ہے۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے تو ہمارا مشورہ ہے کہ آپ بھی ڈائری لکھا کریں۔
روزمرہ کے تجربات ، مشاہدات اور حالات کو ذاتی ڈائری میں لکھنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور اور کام یاب افراد میں ڈائری لکھنے کی عادت مشترکہ ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ڈائری ایک راز دان دوست ہونے کے ساتھ ایک اچھی سامع بھی ہے۔ جس میں آپ اپنے احساسات کو دیانت داری سے لکھ سکتے ہیں۔ یہ خود کلامی اور کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے۔
جب کبھی ہم کسی مخصوص جگہ اور حالات میں کوئی چیز دیکھتے، محسوس کرتے یا سوچتے ہیں تو اپنی یاد داشت پر بھروسہ کرنے کی بجائے انہیں فوری طور پر قلم بند کرلینا چاہئے تاکہ مستقبل میں کبھی اس کا حوالہ دینا پڑ جائے تو آپ کے پاس مکمل تفصیلات موجود ہوں۔ اس طرح بیان میں غلطی کا امکان کم سے کم ہوتا ہے۔ ڈائری لکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کوئی معروف لکھاری یا کوئی مشہور شخصیت ہوں یا لکھنے پر عبور حاصل ہو۔ سیموئیل پی پیز بھی ایک برطانوی سیاست داں تھا، جس نے برطانوی تاریخ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کا تذکرہ ذاتی ڈائری میں اس طرح کیا کہ بعدازاں اس کے مندرجات نے بہت اہم مواد فراہم کیا۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کتب بینی کی عادت ختم ہوئی، پھر خطوط نویسی کا سلسلہ زوال پزیر ہوا اور اب ڈائری لکھنے کی روایت بھی دم توڑتی نظر آرہی ہے، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کرتے ہوئے روایتی ڈائری کی بجائے ڈیجیٹل ڈائری کا رُخ کرتے لیکن عہد حاضر میں ہم نت نئی مصروفیات میں اس قدر اُلجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہماری خصوصاً نسل نو کی توجہ اس جانب نہیں جاتی۔ حالانکہ ڈائری لکھنے کے لئے الگ سے وقت نکالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب بھی مصروفیات کے درمیان کچھ وقت میسر ہو، تو کاغذ قلم لے کر لکھنا شروع کردیجئے۔ اس عمل میں کسی کے پابند نہیں ہیں۔ جو بھی آپ کے خیالات یا روزمرہ کے تجربات و مشاہدات ہوں، انہیں سادہ لفظوں میں لکھ دیجئے۔ لفظی محاسن کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے آپ ہی نے دیکھنا و پڑھنا ہے۔ ہوسکتا ہے ابتداً لکھتے ہوئے بوریت ہوتی ہو لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب آپ اپنی ڈائری کے اوراق پلٹیں گے تو یقیناً عجیب خوشگوار کیفیت سے سرشار ہوں گے۔ ڈائری ماضی کی باتوں اور یادوں کی ایک سجی سجائی آرٹ گیلری سی معلوم ہوگی اور آپ حقیقی معنوں میں ان لمحات سے حظ اٹھائیں گے۔ کیا آپ بھی ان احساسات سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ڈائری لکھنے کی شروعات کیسے کی جائے تو پریشان نہ ہوں طریقہ بہت آسان ہے۔ آپ کو صرف کرنا یہ ہے کہ، ایک نوٹ بُک اور قلم لے کر کسی پُر سکون گوشے میں بیٹھ جائیں۔ اب آپ کے سامنے موجود کورا کاغذ آپ کو خود کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور کرے گا، آپ کچھ بھی لکھ سکتے ہیں، کہیں سے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ مثلاً دن کا آغاز کیسے ہوا؟، آپ کا دن کیسا گزرا، کس سے ملاقات ہوئی، کس نے متاثر کیا، دن بھر میں کوئی نئی مصروفیت رہی یا کوئی نیا تجربہ ہوا، کسی پہلو پر اگر آپ رائے، رائے عامہ سے مختلف ہے اور آپ اسے تنقید کے ڈر کسی سے شئیر نہیں کرسکتے تو آپ یہ بھی ڈائری میں لکھ کر محفوظ کرسکتے ہیں اور پھر مستقبل میں جب کبھی آپ چایہں تو خود اپنی رائے کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ کا نظریہ کس حد تک درست یا غلط تھا۔ اس سے آپ کے اندر اعتماد پیدا ہوگا۔ آپ منفی سوچوں کو ختم کر کے زندگی کو مثبت انداز میں دیکھ سکیں گے۔ نیز آپ صرف گزرنے والے لمحات کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے بھی لکھ سکتے ہیں جو آپ کو اپنے مقصد پر ڈٹے رہنے میں مدد فراہم کرے گا۔ آپ کے اندر مستقل مزاجی پیدا ہوسکے گی۔ اس کے علاوہ جب آپ کی ڈائری لکھنے کی عادت پختہ ہوگی تو آپ دن بھر میں ہونے والے اخراجات بھی لکھا کریں گے، جس سے بجٹ بنانے میں آسانی ہوگی۔
ڈائری لکھنے کا بہترین وقت رات کا ہے، سونے سے قبل جب آپ ڈائری کھولیں اُس وقت ایسا لگے گا جیسے آپ ایک الگ دنیا میں آگئے ہیں جو آپ کی اپنی ہے بناوٹ، تصنع سے پاک ۔ آپ کھل کر یا پھر جامع انداز میں اپنے دل کی بات لکھ سکتے ہیں۔ جس کو چاہیں مخاطب کرسکتے ہیں۔ آپ پوری آزادی کے ساتھ اپنے لفظوں کا استعمال کرسکتے ہیں۔ جب آپ رات کے پرسکون ماحول میں دن بھر میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے سوچیں گے اور انہیں یکے بعد دیگرے قلم بند کریں گے تو وقتاً فوقتاً آپ کی یاد داشت میں بھی بہتری آئے گی۔ ہر کام وقت پر کرنے کی عادت ہوگی۔ جب آپ ہر کام وقت پر کریں گے تو آپ کی ذہنی و جسمانی اعتبار سے بہتر اور پُرسکون محسوس کریں گے۔
موجودہ دور ٹیکنالوجی کا ہے، آج ہر چیز ڈیجیٹل ہوگئی ہے۔ اسی طرح ڈائری کے کچھ نئے انداز بھی سامنےآئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بلاگز، ذاتی ویب سائٹس اس کی مثال ہیں۔ اگر انہیں ڈیجیٹل ڈائری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں آپ کسی بھی حقیقی و ذاتی ڈائری کی طرح مکمل آزادی سے اپنے خیالات کا اظہارکرسکتے ہیں۔ اگر آپ چائیں تو اپنے خیالات کو دیگر افراد کے ساتھ شئیر بھی کرسکتے ہیں جس پر پھر ردعمل اور تبصرے بھی چلتے ہیں۔ آپ کی بات اگر دلچسپ ہے تو قارئین کی بڑی تعداد تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ اسمارٹ فونز میں نوٹ بکس اور ڈائری کی ایپلی کیشنز کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، تاہم کاغذ پر لکھی گئی یاد داشتیں بہت محفوظ تصور کی جاتی ہیں۔
بلاشبہ ڈائری لکھنے کا عمل، ’’نفسیاتی آلے‘‘ کے مترادف ہے، جو آپ کو بلا روک ٹوک اپنے احساسات کے اظہار کے قابل بناتا ہے۔ یہ عمل آپ کو اپنی ذات کا تجربہ کرنا سکھاتا ہے ۔ ڈیجیٹل ڈائری لکھیں یا روایتی، یہ آپ کی مرضی ہے۔ تو پھر آپ ڈائری لکھنا کب شروع کر رہے ہیں!
چند مشہور شخصیات نے بھی ڈائریاں لکھیں
تاریخ مرتب کرنے والوں کے لئے مختلف شخصیات کی ڈائریاں اہم حوالہ جات ثابت ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں اینی فرینک کی ’’دی ڈائری آف ینگ گرل‘‘ نے کافی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اس ڈائری میں جنگ عظیم دوم کے دوران اپنی یادیں قلم بند کی تھیں، جب نازیوں نے یہودیوں کو منظرعام سے غائب ہوجانے پر مجبور کردیا تھا۔ اس ڈائری کے کئی زبانوں میں ترجمے کیے گئے، بعدازاں اس کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسے فلمایا بھی گیا۔ اس کے علاوہ سیموئیل پی پیز کی ڈائری بھی بہت مشہور ہوئی، جس میں اس نے اپنی جوانی کے لگ بھگ دس برسوں کی داستاں لکھی تھی۔ اور اس مدت میں پیش آنے والے کئی اہم واقعات قلم بند کیے۔ ورجینا وولف کی ڈائریاں بھی بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے پندرہ برس کی عمر سے ڈائری لکھنا شروع کی۔ ورجینا کی شادی ایک لکھاری کیونارڈوولف سےہوئی۔ ان ڈائریوں میں اس کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ جب اس نے بچپن میں ڈائری لکھنا شروع کی تو اسے خاندان کی غیر رسمی تاریخ نویس کہا گیا۔ اس کی ڈائری سے ایک بیدار مغز لکھاری کے احساسات اور اس کے سوچنے کے انداز کا پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح امریکا کے صدر ہنری ایس ٹرومین کی ڈائری لکھنے کی عادت کا بڑا چرچا ہوا۔ وہ اپنی نجی زندگی، کی بابت روزانہ کی مصروفیات اور کامیابیوں پر اپنے تجربات باقاعدگی سے قلم بند کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ ’’ڈائری لکھنا مجھے اپنی سوچ کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے‘‘۔ جرمن ادیب مارٹن والسر بھی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں اپنے حالات و واقعات کو بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ممتاز ادیب پیٹرریو ہم کورف نے بھی اپنے روز نامچے ’’نوٹاٹے‘‘ کے نام سے شائع کئے، جن میں وہ بڑی خوبصورتی سے اپنی ذات پر طنز کرتے ہیں۔