• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں کبھی کبھار، مگر اچانک میں ایک شخص کو کانسٹیٹیوشن ایونیو جسے اردو میں شاہ راہ دستور کہتے ہیں، کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے دیکھتا تھا اور شش و پنج میں پڑ جاتا تھا۔قومی اسمبلی، وزیراعظم سیکرٹریٹ، سپریم کورٹ، نیشنل لائبریری اور ایوان صدر کی عالیشان عمارتیں کانسٹیٹیوشن ایونیو پر بنی ہوئی ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی دائیں جانب سے ایک ٹیڑھا میڑھا راستہ نکل کر شاہ راہ دستور سے آکر ملتا ہے۔ شاہ راہ جمہوریت اس روڈ کا نام ہے۔ شاہ راہ جمہوریت پر حواس باختہ کردینے جیسے موڑ ہیں جو کئی ایک حادثات کا سبب بن چکے ہیں۔حکومتیں آتی رہتی ہیں۔ حکومتیں جاتی رہتی ہیں۔ مگر کسی حکومت میں اتنا دم خم نہیں ہوتا کہ ٹیڑھی میڑھی شاہ راہ جمہوریت کو سیدھا کرسکے۔ ٹیڑھی میڑھی شاہ راہ جمہوریت کے ہر موڑ پر اہم اور حساس اداروں کی عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔ شاہ راہ جمہوریت کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ وہ تاابد اسی طرح ٹیڑھی رہے گی۔

شاہ راہ جمہوریت جس نہج سے شاہ راہ دستور یعنی کانسٹیٹیوشن ایونیو سے ملتی ہے، وہیں سے میں نے پُراسرار شخص کو کبھی کبھی گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔ سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ پُراسرار شخص شاہ راہ دستور سے گزرتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پلے کارڈ ہوتا تھا۔ وہ دائیں دیکھتا تھا، نہ بائیں، سڑک کے بیچوں بیچ چلتا رہتا تھا۔ شاہ راہ دستور اسلام آباد کا مصروف راستہ ہے۔ بڑے اور بااثر لوگوں کا وہاں سے گزر ہوتا ہے۔ مجھے آج تک حیرت ہوتی رہتی ہے کہ جب پُراسرار شخص شا راہ دستور سے گزرتا تھا تب راستہ خالی اور سنسان رہتا تھا۔ پُراسرار شخص عجلت میں نہیں ہوتا تھا۔ تحمل سے چلتے ہوئے وہ جب ایوان صدر کے قریب سے گزرتا تھا۔ تب تک سورج غروب ہو جاتا تھا اور وہ پُراسرار شخص بھی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا تھا۔ یہ سب کچھ اس قدر ناقابل فہم تھا کہ کسی کولیگ نے میری بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ پھر جب میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کو میری ذہنی صحت پر شک ہونے لگا تھا، تب میں نے پُراسرار شخص کے بارے میں لوگوں کو کچھ بتانا چھوڑ دیا۔ کچھ شرارتی کولیگ مجھے چھیڑنے سے باز نہیں آتے تھے۔ آتے جاتے اچانک پوچھ بیٹھتے تھے، ’’بتا بھائی بالم، کیا حال ہے تمہارے پُراسرار شخص کا؟‘‘، میں جھینپ جاتا تھا۔ ایک کولیگ نے کہا تھا ’’تم آب پارہ والے پیر بابا کے پاس آنا جانا چھوڑ دو۔ پھر تمہیں پُراسرار شخص دکھائی نہیں دے گا‘‘۔

عام طور پر چرسی اور ہیروئنی پیر بابا کے مزار کے آنگن میں برگد کے درختوں کے نیچے پڑے رہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ میں دو چار مرتبہ پیر بابا کے مزار پر حاضری دیتے ہوئے دیکھا گیا تھا لیکن میں وہاں چرس اور گانجے کے لئے نہیں گیا تھا۔ میں دعا مانگنے گیا تھا کہ پیر بابا، اسلام آباد میں میرا دم گھٹتا ہے۔ کرم کرکے میرا تبادلہ کراچی کروا دے۔ پیر بابا کے مزار پر دو چار مرتبہ جانے کے بعد میرا تبادلہ کراچی تو نہ ہوسکا، الٹا بدنامی میرے گلے پڑ گئی۔ میرے روسیاہ رقیبوں نے بے پر کی اڑا دی کہ میں چرسی تھا اور شام ڈھلے پیر بابا کے مزار کے آنگن میں پڑا رہتا تھا مگر یہ سب کچھ قطعی غلط تھا۔ درست یہ تھا کہ میں واپس کراچی جانا چاہتا تھا۔ اسلام آباد میرے لئے بنواس تھا۔ رام نے چودہ برس بنواس میں گزارے تھے۔ اسلام آباد کے بنواس میں، میں نے اٹھائیس برس گزارے ہیں۔ رام کے پاس سیتا تھی، لکشمن تھا، اور بندروں کا راجا ہنومان تھا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ پھر بھی میں نے رام کے چودہ برس کے بنواس سے دگنے برس اسلام آباد کے بنواس میں تنہا کاٹے ہیں۔ یوں بھی نہیں ہے کہ اسلام آباد میں سیتائیں نہیں تھیں۔ اسلام آباد میں سیتائیں تھیں، مگر ہر سیتا کا اپنا ایک رام ہوتا تھا۔ ایک سیتا نے مجھ سے کہا تھا کہ تم رام بن جائو۔ تمہیں بھی ایک سیتا مل جائے گی مگر میں ناستک تھا۔ میں رام نہ بن سکا۔ مجھے سیتا نہ مل سکی۔ ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں بے مقصد سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ تب، اچانک شاہ راہ دستور یعنی کانسٹیٹیوشن ایونیو پر، سڑک کے بیچوں بیچ پُراسرار شخص مجھے اطمینان سے چلتے ہوئے دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پلے کارڈ ہوتا تھا، جس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا۔ ایک روز جب وہ شاہ راہ دستور اور شاہ راہ جمہوریت کے نکڑ سے گزر رہا تھا تب آگے بڑھ کر میں نے پُراسرار شخص سے پوچھا تھا۔ ’’تم کون ہو؟‘‘

اس نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھتے ہوئے کہا ’’میں تمہارا ماضی ہوں۔ میں تمہارا مستقبل ہوں‘‘۔ اپنی ہنسی روکتے ہوئے میں نے پوچھا۔ ’’میرا حال کہاں ہے؟‘‘ پُراسرار شخص نے کہا ’’تمہارا کوئی حال نہیں ہے، تم بے حال تھے، تم بے حال ہو، تم بے حال رہو گے‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’اچھا یہ بتائو تم نے خالی پلے کارڈ کیوں اٹھا رکھا ہے؟‘‘ اجنبی شخص نے دونوں ہاتھوں سے پلے کارڈ تھام کر اور مجھے دکھاتے ہوئے کہا ’’پڑھو‘‘۔ مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پلے کارڈ پر بہت کچھ لکھا ہوا تھا مگر سب کچھ گڈمڈ تھا۔ تحریر پر تحریر لکھی ہوئی تھی۔ میں ایک ایک تحریر کی ابتدا اور انتہا تلاش کرتا رہا۔ ایسے میں ایک تحریر تمام تحریروں پر مجھے واضح نظر آنے لگی۔ لکھا تھا۔ ’’ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں کا ڈھول پیٹنے اور چیخنے چلانے سے ایکتا نصیب نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھو۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانا بند کرو۔ ایکتا دوڑی چلی آئے گی‘‘۔

تازہ ترین