• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سول سروس میں بڑی اصلاحات، وزیراعظم وزراء کیساتھ معاہدہ، کارکردگی اور اہداف کا تعین کریں گے

اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی کابینہ نے حکومت کے تربیتی اور کارکردگی کے مینجمنٹ سسٹم میں زبردست تبدیلیوں کی منظوری دی ہے، جن میں سول سروس آف پاکستان میں اسپیشلسٹ اور ماہرین کو عمومی ماہرین کے مقابلے میں سول سروس آف پاکستان کا حصہ بنانا بھی شامل ہے۔ 

ایک فیصلے کے تحت وزیراعظم ہر وزیر کے ساتھ کارکردگی کے حوالے سے معاہدہ کریں گے جس میں مخصوص اہداف اور مقاصد کی نشاندہی کی جائے گی اور ان پر وقتاً فوقتاً غور کیا جائے گا۔ 

وزیر کے ماتحت کام کرنے والے افسران کی کارکردگی کے اہداف طے کیے جائیں گے اور ان کا نتیجہ اُسی معاہدے کے تحت اخذ کیا جائے گا۔

یہ اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کی زیر قیادت سول سروس ریفارم باڈی نے تیار کی ہیں جن کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ 1973ء کے بعد یہ سب سے بڑی اصلاحات ہیں اور ان کا مقصد موجودہ نظام کی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پانا اور بھرتی، کیریئر میں آگے بڑھنے کے مواقع اور معاوضے وغیرہ کے معاملے میں اعلیٰ ترین اور دیگر سروسز کے درمیان تفریق ختم کرکے انہیں مساوی سطح پر لانا ہے۔

 باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ نے اپنے گزشتہ اجلاس میں ٹریننگ اینڈ پرفارمنس مینجمنٹ کے حوالے سے دو سمریوں میں دی گئی تجاویز منظور کیں۔ 

ذریعے کا کہنا ہے کہ اسپیشلسٹس اور ماہرین کو سول سروس میں عمومی ماہرین کے مقابلے میں لانے کیلئے یہ تبدیلیاں بہت زبردست ہیں، کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے معروضی طریقہ اختیار کیا جائے گا جسے Key Performance Indicator Based System کا نام دیا گیا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت افسران کی اکثریت کو شاندار کی کیٹگری میں رکھا جاتا ہے، مجوزہ رینکنگ کے تحت صرف 20؍ فیصد کو اُس کیٹگری میں رکھا جائے گا اور اس طرح غیر معمولی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں اور دیگر میں تفریق کی جا سکے گی۔

کابینہ کی جانب سے منظور کی جانے والی اسکیم کے مطابق، وزیراعظم ہر وزیر کے ساتھ کارکردگی کے حوالے سے معاہدہ کریں گے جس میں مخصوص اہداف اور مقاصد کی نشاندہی کی جائے گی اور ان پر وقتاً فوقتاً غور کیا جائے گا۔ 

وزیر کے ماتحت کام کرنے والے افسران کی کارکردگی کے اہداف طے کیے جائیں گے اور ان کا نتیجہ اُسی معاہدے کے تحت اخذ کیا جائے گا۔ 

منظور شدہ دستاویز میں لکھا ہے کہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا طریقہ یہ ہوگا کہ ایک سال کیلئے افسر اور نگران (سپروائزر) کے درمیان مقاصد / اہداف پر اتفاق ہوگا۔ 

کارکردگی کے اہم اشاریوں کا جائزہ لیا جائے گا اور ان کی تصدیق کی جائے گی تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ طے شدہ اہداف حاصل ہوئے یا نہیں۔

ہر ڈویژن مندرجہ ذیل کیٹگری استعمال کر سکتی ہے: 20؍ فیصد شاندار، 60؍ فیصد اطمینان بخش اور 20؍ فیصد اوسط سے نیچے۔ اس میں مزید لکھا ہے کہ جنہیں شاندار کی کیٹگری میں رکھا جائے گا انہیں اطمینان بخش کی کیٹگری میں آنے والوں کے مقابلے میں دوگنا سالانہ میرٹ ملے گا۔ 

جو لوگ اوسط سے نیچے کی کیٹگری میں آئیں گے ان کے میرٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔

سرکاری رہائش کے معاملے میں ترجیح ٹاپ 20؍ فیصد والوں کو دی جائے گی۔ 

کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے نئی جائزہ رپورٹ (پرفارمنس ایولیوشن رپورٹ) کا پروفارما ملازمت کی تفصیلات کے مطابق تیار کیا گیا ہے جس میں مندرجہ ذیل باتیں شامل ہوں گی۔

 1) ایک سال کے مقاصد اور اہداف، 2) کارکردگی کے اہم اشاریے، 3) رپورٹ لکھنے والے افسر کا جائزہ، 4) ترقیاتی و تربیتی ضروریات۔ 

سرکاری ملازمین کی استعداد میں اضافے اور تربیت کیلئے، کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بھرتی کے بعد 3؍ سے 6؍ ماہ کیلئے سرکاری اداروں کے متعلق معلومات، ڈھانچے، طریقہ کار، ضوابط، اصول، قوانین، سافٹ اسکلز جیسا کہ ٹیم تشکیل دینا، رابطہ کاری کا ہنر وغیرہ سکھایا جائے گا چاہے وہ افسر ایکس کیڈر ہو یا نان کیڈر۔

اس تربیت کا انتظام نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں کرے گا۔ 

ان کورسز کی معیاد کو مخصوص کیڈرز کیلئے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا؛ 1) ایک حصہ ایم سی ایم سی / این آئی ایم / این ایم سی میں ہوگا جس کے بعد 2) مخصوص تربیتی انسٹی ٹیوٹ میں دائرۂ اختیار کے حوالے سے مخصوص تربیت (ایس ٹی آئی) دی جائے گی۔ 

ایکس کیڈر اسپیشلسٹ کیلئے متعلقہ وزارت مخصوص تربیتی پروگرامز کا اہتمام کرے گی جو اگلے گریڈ میں ترقی سے جڑی ہوگی۔ 

نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی معیاری انتظامات، نگرانی اور معیاری معاونت کیلئے اعلیٰ ترین ادارہ ہوگا۔ 

شرکاء کا انتخاب، ڈیزائن، مواد اور کورسز کی ڈلیوری متعلقہ تربیتی ادارے کے معاملے میں لامرکزیہ (ڈی سینٹرلائزڈ) ہوگی۔ 

اچھی ساکھ، رویے اور مسابقتی رویے کے حامل اچھے افسران کو راغب کرنے کیلئے فیکلٹی اور ڈائریکٹنگ اسٹاف کا انتخاب اور ان کی مراعات کا اسٹرکچر این ایس پی پی کے معیارات کے مساوی بنایا جائے گا۔

 تمام تربیتی اداروں کو خودمختار بنایا جائے گا اور ان کا اپنا بورڈ آف گورنرز ہوگا جس میں ماہرین تعلیم، پریکٹیشنرز، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین وغیرہ شامل ہوں گے۔ 

سرکردہ جامعات اور ریسرچ اداروں کے ساتھ وابستگی قائم کی جائے گی۔

تازہ ترین