اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا دو دن کا راہداری ریمانڈ منظور کر لیا۔
نیب راولپنڈی کی جانب سے آج سینئر پی پی رہنما خورشید شاہ کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا ۔
احتساب عدالت میں نیب کی جانب سے خورشید شاہ کو سکھر کی عدالت میں پیش کرنے کے لیے راہداری ریمانڈ کی درخواست دی گئی جس پر جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ سکھر جانے میں کتنا ٹائم لگ جاتا ہے؟
خورشید شاہ نے عدالت کو بتایا کہ آج صبح سکھر کی فلائٹ تھی، کل بھی ہوگی، اس پر تفتیشی افسر نیب نے عدالت سے کہا کہ 3 دن کا راہداری ریمانڈ دے دیں، ہم پہلی دستیاب فلائٹ سے انہیں سکھر لے جائیں گے۔
اس موقف پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے خورشید شاہ کا 2 دن کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ خورشید شاہ کو 2 دن میں سکھر کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ خورشید شاہ کو کل اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا، ان پر آمدن سے زیادہ اثاثوں اور فلاحی پلاٹ غیر قانونی طور پر اپنے نام کرانے کا الزام ہے۔
خورشید شاہ کو نیب راولپنڈی نے نیب سکھر کی تحقیقات پر بنی گالا سے گرفتار کیا تھا۔
خورشید شاہ پر الزامات کیا ہیں ؟
قومی احتساب بیورو نے پیپلزپارٹی کے ایک نہایت اہم رہنما سید خورشید شاہ کو کیوں گرفتار کیا ؟ ان پر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کاالزام ہے جن کی مالیت تقریباً 70؍ کروڑ روپے ہے جومختلف فرنٹ مین کے ناموں پر ہے۔
یہ اثاثے مبینہ طور پرناجائز آمدن سے بنائے گئے، تفتیش میں شامل اعلی نیب حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نےسکھر کی ضلعی انتظامیہ سے اہم ریکارڈ اور فائلیں حاصل کرلیں ہیں۔
ریونیو افسران نے اہم تفصیلات بتائیں جو بالآخر بدھ کو اسلام آباد سے خورشید شاہ کی گرفتاری کا سبب بنیں۔
نیب کے ایک سینئر افسر نے اس نمائندے کو بتایا کہ خورشید شاہ، ان کے خاندان اور فرنٹ مین کے ناموں پراثاثوں اور جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔ جس میں نیو تاج ہوٹل شکارپور روڈ سکھر مالیت 25؍ کروڑ روپے، اس میں بے نام دار فرنٹ مین اعجاز بلوچ ہے۔
روہڑی روڈ پر فرنٹ مین قاسم شاہ کے نام سے 9؍ کروڑ روپے مالیت کا پٹرول پمپ ہے۔ خورشید شاہ کی جانب سے مبینہ طور پر کک بیکس کے ذریعہ سرکاری اراضی پر فرنٹ مین پپو مہر کے نام سے بنگلہ ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک نیب افسر نے بتایا کہ روہڑی میں بے نامی گلف ہوٹل ہے جو مقامی ٹھیکیداروں کی جانب سے کک بیکس کی آمدنی پر تعمیر کیا گیا۔
خورشید شاہ پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اندرون سندھ عمر جان اینڈ کمپنی، نواب اینڈ کمپنی وغیرہ کے لئے بھاری ٹھیکے حاصل کئے جس میں کروڑوں روپےخوردبرد کئے گئے۔
نیب سکھر میں خورشید شاہ کی ملکیت میں املاک کی بھی تحقیقات کررہا ہے جو سکھر، روہڑی اورکراچی میں موجود ہیں۔ مکیش فلور ملز، گلیمر بنگلہ، جونیجو فلور ملز اور 83؍ دیگر املاک خورشید شاہ کے فرنٹ مین پہلاج رائے کے نام پرر جسٹرڈ ہیں جبکہ 11؍ املاک لڈو مال اور 10؍ املاک حسین سومرو کےنام سے ہیں۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ اس کیس سے متعلق سندھ میں مزید اہم گرفتاریاں متوقع ہیں۔