من حیث القوم یہ ہماری بے بسی یا بے حسی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم اپنے بچوں تک کی بھی حفاظت نہیں کر پاتے۔ چونیاں قصور میں تین بچے اغوا کے بعد قتل کر دیئے گئے، ایک کی پوسٹمارٹم رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق ہوئی۔ اس پر شہریوں کا مشتعل ہو کر تھانے پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کرنا غیر فطری نہ تھا کہ وہ ایسے زخم 2008ءسے برداشت کر رہے ہیں۔ اسی علاقے کے گائوں حسین والا میں 2015ءمیں لگ بھگ 300بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی وڈیوز بنا کر ان بچوں کے والدین کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بھی بٹورے گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ واقعہ میں پولیس اور مقامی سیاستدان بھی ملوث ہیں کہ وہی اوّل روز سے اسے دبانے میں مصروف رہے۔ اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ نے ایسے کسی واقعہ سے ہی انکار کر دیا، عدلیہ کمیٹی بنائے جانے کی بھی بات ہوئی لیکن سیاسی حالات کے باعث معاملہ دب کر رہ گیا۔ جنوری 2018ءمیں سامنے آنے والے زینب قتل کیس نے ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا، زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ نے جنسی درندگی کا پتا دیا۔ عوامی اشتعال بڑھا تو پولیس نے گولی چلا دی جس سے دو افراد جاں بحق ہوگئے، پولیس اور خفیہ اداروں کی مشترکہ ٹیم نے ملزم علی عمران کو گرفتار کیا جسے 17اکتوبر 2018ءکو پھانسی دے دی گئی۔ ایسے دلخراش سانحات کے بعد اب پھر اسی علاقے سے تین بچوں کے قتل پر پولیس افسران کو محض معطل کرنا کافی ہے؟ اگر نہیں تو پھر حکومت کو اس واقعہ پر سخت ایکشن لینا ہوگا، مجرموں کی فوری گرفتاری کے ساتھ ساتھ اس قبیح فعل میں ملوث افراد کا ہمیشہ کیلئے ناطقہ بند کرنے کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔