• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کے مشہور و معروف شاعر محمود درویش نے لکھا تھا، ’گھر ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پینے کا نام ہے‘۔ مگر گھر تو ماں کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی لوری سُننے کا بھی نام ہے۔ ایک ایسا ہی گھر جسے اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے، آج بھی نظر رکھنے والی آنکھوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا اور دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ گھر حیدرآباد میں پکا قلعہ کے مرکزی دروازے اور ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے ’مُکھی ہاؤس‘ کے نام سے مشہور ہے، اسے’مُکھی محل‘ بھی کہتے ہیں جوکہ اب ’مُکھی ہاؤس میوزیم‘ میں تبدیل ہوچکا ہے۔

شاندار فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ مکھی محل آج سے تقریباًایک سو سال قبل جیٹھا نند مکھی بِن پرتم داس (1833ء-1927ء)نے 1920ء میں اپنی خواہش اور پسند کے عین مطابق تعمیر کروایا اور اسے ’مُکھی محل‘ کا نام دیا، جو کہ واقعی ایک محل سے کم نہیں ہے۔ جیٹھانند مکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری انتظامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔ اسی مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مکھی باغ بھی تھا مگر اب اس باغ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، یہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔ اس شاہکار گھر کی تعمیر کے سات برس بعد جیٹھانند مکھی 1927ء میں اس دنیا سے چل بسے اور یہ شاندار محل نما گھر ان کی بیوہ اور دو بیٹوں کے نام ہوگیا ۔

وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے بہتے دریا کا رُخ کبھی انسان کے حق میں تو کبھی اس کے خلاف ہوجاتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا، وہ سالہا سال تک جاری رہا لیکن مکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور گھر میں مقیم رہا۔ تاہم 1957ء میںانھوں نے بھی اس محل نما گھر کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان میں رہائش اختیار کرلی۔

کسی پرسکون شہر میں ایک عالیشان گھر کس طرح خالی رہ سکتا ہے؟ مکھی ہاؤس کے شب و روز بھی کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔ یہاں پر کسی زمانے میں ہندوستانی سفارت خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ایف سی کا ہیڈ کوارٹر رہا، جبکہ اس کے نچلے حصے کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

حیدرآباد شہر نے اس وقت اپنا سکون کھویا، جب 1988ء میں یہاں لسانی فسادات ہوئے۔ انہی دنوں مکھی ہاؤس کو نذر آتش کردیا گیا۔ گھر کے دروازے، کھڑکیاں اور کمروں میں رکھا فرنیچر جل کر خاک ہوگئے۔

2009ء میں سندھ حکومت کے محکمہ آثارِ قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد 2013ء میں مکھی خاندان نے اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا اور اسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے بعد میوزیم میں تبدیل کرنے کی اجازت دی، چنانچہ اب یہ ’مُکھی ہاؤس میوزیم‘ کہلاتا ہے۔

مکھی ہاؤس کے مرکزی دروازے کے اردگرد مضبوط دیوار ہے۔ دائیں جانب سیڑھیوں سے چڑھتے ہی بڑے صحن میں داخل ہوتے ہیں، جس کے متعلق مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہاں مکھی خاندان کے افراد عبادت کرتے اور پرساد تقسیم کرتے تھے۔ نچلی منزل8کمروں پر مشتمل ہے، ہر کمرے میں تین سے چار دروازے ہیں اور ہر دروازہ دوسرے کمرے میں کھلتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر کمرے میں متعدد روشن دان ہیں۔ برآمدے کے مشرقی حصے میں دو باتھ روم اور ایک سنڈاس (جائے حاجت) ہے۔

ایک لکڑی کی سیڑھی صحن کی مغربی سمت سے پہلی منزل کی طرف جاتی ہے ۔ پہلی منزل چھ بیڈروم اور ایک چھوٹے سے ہال پر مشتمل ہے جبکہ مشرقی اور مغربی جانب مزید دو کمرے اور اسٹور روم ہے۔ دونوں کمرے کشادہ ہال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جنوبی جانب ایک برآمدہ اور بالکنی ہے، جس کے مشرقی حصے میں دو باتھ روم اور ایک سنڈاس ہے۔اندرونی دیواریں مختلف قسم کی پینٹنگز سے سجی ہوئی ہیں ۔

کھڑکیوں اور دروازوں میں شیشم اور ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہر کمرے کی دیوار میں الماریاں نصب کی گئی ہیں اور روشندان بنائے گئے ہیں۔ اس دور میں جو فن تعمیر کے رجحانات تھے، انہیں برقرار رکھتے ہوئے اس گھر کو بنایا گیا ہے۔ مگر اس گھر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ایک مرکزی گنبد بھی ہے، جو اسے تمام عمارات سے ممتاز بناتا ہے اور اسے دور سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کشادہ کمرے اور راہداریاں بھی گھر کی زینت میں اضافہ کرتی ہیں۔ عمارت کی تعمیر میں اینٹ کے بجائے بلاکس کا استعمال کیا گیا ہے۔

آتشزنی کے باعث دیواروں پر بنائے گئے نقش و نگار بھی مٹ گئے تھے مگر چند بچ جانے والے نقوش کو دیکھ کر دیواروں اور چھت پر اسی قسم کے نقش و نگار ایک بار پھر سے بنائے گئے ہیں، تاکہ اس کی قدامت برقرار رہے۔

تازہ ترین