رواں ماہ کے آغاز سے ہی ڈگری اور گردونواح میں خودکشی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔اپنی موت آپ مرنےکے لیے مختلف طریقے، آلات اور اشیاء استعمال کی جاتی ہیں جن میں زہریلی زرعی ادویات، رسی اور ڈوپٹوں کے پھندے، خواب آور گولیوں کے علاوہ آتشیں اسلحے کا استعمال ہو رہا ہے ـ
معاشرے میں عدم برداشت، خانگی تنازعات، غربت، مہنگائی اور معاشی صورت حال خودکشی کی وجہ سے انسانی جانوں کی ہلاکتوں کی اہم وجوہات قرار دیئے جارہے ہیں۔
نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق ڈگری اور گردونواح کے علاقوں میرواہ گورچانی، کوٹ غلام محمد، ٹنڈو جان محمد اور دیگر علاقوں میں اس ماہ کے پہلے ہفتے سے ہی اقدام خودکشی کے واقعات میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ـ زیادہ تر اقلیتی برادریوں میں خودکشی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ـ
زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے زہریلی دوائوں کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہےـ زہریلی دوائی استعمال کرکے مرنے کی کوشش کرنے والوں میں سے اکثریت کی جان انیمیا دے کر اور معدہ واش کرکے زندگی بچا لی جاتی ہے۔ ڈگری شہرمیں زندگی کے خاتمے کے لیے کئی واقعات میں ڈوپٹے یا رسی کے پھندے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
ان افراد کو بچایا نہیں جاسکا کیوں کہ انہوں نے کمرہ بند کرکے پنکھے یا لوہے کے آنکڑے سے لٹک کر خوکشی کی۔ چند واقعات میں گھر والوں سے ناراض ہوکر خود کشی کرنے والوں نےآتشیں اسلحہ کا بھی استعمال کیا۔ ان افراد میںسے ایک نوجوان کی جان کوششوں کے باوجود نہیں بچائی جا سکی، جبکہ ایک شخص معجزانہ طور پرزندہ بچ گیا۔
خودکشی کےبعض واقعات میں خواب آور گولیاں بھی استعمال کی گئیں۔ لیکن ان افراد کو بھی موت کے منہ میں جانے سے بچالیا گیا۔ ـ اس ضمن میں ڈگری کے تعلقہ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر انوارالدین کھتری نے نمائندہ جنگ کے استفسار پر بتایا کہ زہریلی دوا اور خواب آور گولیاں استعمال کرنے والوں کو دو تین گھنٹے تک بھی اگر اسپتال لایا جائے تو انہیں فوری طبی امداد مل جاتی ہے۔ اس لیے ان کی زندگی بچ جاتی ہے۔ ڈگری تعلقہ اسپتال میں ہر ہفتے درجنوں ایسے کیسز رجسٹرڈ ہورہے ہیں۔
رواں ہفتے بھی ایک درجن کے قریب ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں ـ جبکہ دوسری طرف پھندا لگانے والوں کو بچانا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ وہ موقع پر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ لیکن ان کی لاشوں کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے ـ ڈگری تعلقہ اسپتال میں دو کیس اسلحہ استعمال کرنے کے بھی آئے۔ جن میں سے ایک کو بچالیا گیا۔ کیونکہ اسے زخمی حالت میں فوری طور پر اسپتال لایا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے کیس میں نوجوان موقع پر دم توڑ گیا تھا۔
علاوہ ازیں خودکشی کے وجوہات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ خودکشی کی وجہ گھریلو ناچاقی بڑھتی ہوئی غربت ، ذہنی تناؤ اور معاشرے میں پایا جانے والا عدم برداشت کا رویہ ہے ـ غربت کی وجہ سے لوگ ذہنی طور پر پریشان ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بھی واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات خوفناک ملکی صورت حال کی عکاسی کررہے ہیں۔ خود کشی کے واقعات میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے اور اقلیتی ذاتوں بھیل،کولہی، میگھواڑ، اور نچلی ذاتوں کے لوگوں کی اکثریت شامل ہے۔
زہریلی ادویات کا گھر گھر موجود ہونا بھی ایسے واقعات میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں ہی ڈگری اور گردونواح میں ہونے والے خود کشی کے واقعات معاشرے میں بڑھنے والی غربت، عدم برداشت اور معمولی معمولی باتوں پر خود کشی کے انہتائی اقدام کا اٹھانا افسوس ناک امر ہے۔ ذمہ دار حلقوں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ قدم اٹھانا ہو گا۔
ان اسباب کا سدباب کرنا ہوگا جن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہیں ۔خود کشی کے واقعات کی تفتیش منصفانہ انداز سے ہونی چاہئےر زندہ بچنے والے افراد کے ساتھ نرم برتاؤ کیا جانا چاہئے ۔ حرام موت مرنے سے بچانے کے لئے عوامی سطح پر لوگوں میں شعور اجاگر نے کی بھی ضرورت ہے۔