• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدّثر اعجاز ،لاہور

معروف مفکّر ارسطو کاکہنا ہے،’’انسان ایک مہذّب معاشرتی جانور ہے، وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اُسے بہتر زندگی گزارنے کے لیے اپنے جیسے دیگر انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ انسانوں کے ایک دوسرے پر انحصار کی اسی ضرورت نے معاشرے کی بنیاد رکھی۔ انسانی معاشرے کی مزید تقسیم ذات، مذہب اور پیشوں کے اعتبار سے کی جا سکتی ہے، مگرکسی بھی معاشرے کی سب سے مضبوط اور بنیادی اکائی ایک خاندان ہی ہوتا ہے۔ماہرینِ عُمرانیات کے مطابق،’’انسانوں کا ایسا گروہ جو آپس میں خونی رشتے دار ہوں یا اُن میں کوئی قانونی رشتہ استوار ہو، خاندان کہلاتا ہے۔‘‘

خاندان کی ابتدا مَرد اور عورت کی شادی سے ہوتی ہے، پھر ان کی اولاد کے ساتھ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یوں تو خاندان کو اپنی ساخت کے اعتبار سے کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی دو اقسام زیادہ مقبول اور اہم ہیں۔ ایک قسم ’’انفرادی خاندان‘‘کہلاتی ہے، جو میاں بیوی اور اُن کی اولاد پر مشتمل ہے۔ دوسری قسم ’’مشترکہ خاندان‘‘ ہے، جہاں کم از کم دو یا اس سے زیادہ نسلیں مل کر رہ رہی ہوں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان دونوں طرح کے خاندانوں میں پرورش پانے بچّوں کی تربیت کا انداز ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے، مگر ان میں سے کون سا نظام بہتر ہے؟ اس پر دُنیا بَھر میں تحقیق کا سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ ایک دوسرے کے حق اور مخالفت میں بہت سے دلائل دیئے جاتے ہیں، جن کا ایک مختصر سا جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام میں دادا ،داد ی اور اُن کی اولاد ایک ہی گھر میں قیام پذیر ہوتی ہے۔ ان کا باورچی خانہ ایک بھی ہو سکتا ہے اور الگ بھی۔ یہ نظام ایشیا اور افریقا کے مُمالک میں زیادہ مقبول ہے۔ اگرچہ امریکا اور یورپ میں بھی ایسے خاندان موجود ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس نظام کے حق میں سب سے پہلی دلیل تو یہ دی جاتی ہے کہ انسانوں نےجب سے اکٹھے رہنا شروع کیا تو اپنے باپ ،دادا اور دیگر رشتے داروں سمیت ایک ہی جگہ اور ایک ہی خاندان یا قبیلے کی شکل میں کیا۔

مَرد شکار یا کاشت کاری کیا کرتے اور خواتین بچّے پالنےسمیت گھر کے امور انجام دیتیں۔ ہر ایک کی ذمّے داریاں، حقوق اور فرائض الگ الگ اور واضح تھے۔ آج بھی مشترکہ خاندانی نظام کی یہ خاصیت اسی طرح موجود ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں پلنے والے بچّوں میں عمومی طور پر تین خصلتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ ان بچّوں میں خاندان کےبزرگوں کو اہمیت دینے اور ان کی عزّت کرنے کا رجحان انفرادی خاندان کے بچّوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔

دوم، ان بچّوں کو باپ کے علاوہ دوسری نسل یعنی دادا کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، اس لیے یہ خود کو زیادہ محفوظ اور پُرعزم محسوس کرتے ہیں اور سوم یہ کہ چوں کہ سب بچّے اپنے کزنز وغیرہ کے ساتھ مل کر رہتے ہیں، تو انھیں ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شامل ہونے کی عادت ہوتی ہے، جو آگے چل کر عملی اور اجتماعی معاملات میں مدگار ثابت ہوتی ہے۔ 

مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والوں کے اخراجات بھی مشترکہ ہی ہوتے ہیں اور ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق ان اخراجات میں حصّہ ڈالتا ہے، جس سے کسی ایک فرد پر معاشی بوجھ نہیں پڑتا۔ کم کمانے والے فرد کے حقوق کا تعیّن اس کی دولت سے نہیں، بلکہ اس کی عُمر اور رشتے سے کیا جاتا ہے۔اس لیے مشترکہ خاندان میں رہنے والے افراد خود کو معاشی طور پر زیادہ محفوظ تصوّر کرتے ہیں۔

مشترکہ خاندان کے بچّے اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کی زیرِنگرانی تربیت پاتے ہیں، تو اخلاقی قدریں بھی زیادہ بہتر طور پر سیکھتے ہیں۔ ایسے بچّوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے کنبے کے کئی افرادموجود ہوتے ہیں۔ چوں کہ ان پر پابندیاں بھی نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں، تو عملی زندگی میں اصولوں کی زیادہ پاس داری کرتے ہیں اور روایات پسند ہوتے ہیں۔

پھر اس سسٹم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گھر کے بزرگ اولڈ ہومز کی بجائے گھر کے دیگر افراد کے ساتھ تاحیات رہتے ہیں۔ نیز، گھر کے اہم فیصلوں میں اُن کی آراء کو فوقیت دی جاتی ہے اور بچّے،بڑے سب ہی اُن کے ساتھ خوشی خوشی وقت گزارتے ہیں۔ نیز، مختلف تہواروں، میل ملاقات کے مواقعے پر بھی مل جُل کر رہنے والے بہ نسبت انفرادی خاندانی نظام میں پلنے والوں کی نسبت زیدہ انجوائے کرتے ہیں۔

یورپ اور امریکا میں انفرادی خاندانی نظام زیادہ مقبول ہے۔ ایسے خاندانوں میں دو نسلیں یعنی ماں باپ اور اُن کے بچّے اکٹھے رہتے ہیں۔ انفرادی خاندان کا حجم مشترکہ خاندان کی نسبت بہت مختصر ہوتا ہے۔ اس نظام کے حق میں بھی کئی دلائل دئیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ایسے خاندان میں رہنے والے بچّوں کو اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کا بَھرپورموقع ملتا ہے،تو ان کے مابین زیادہ ذہنی مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

یہاں چاہت و محبّت کا محور صرف والدین اور اولاد ہوتی ہے، جب کہ مشترکہ خاندان میں دیگر کئی رشتوں کو بھی پیار، عزّت و احترام دیا جاتا ہے۔ ایک ہی گھر میں زیادہ بچّوں کے ایک ساتھ پلنے سے ذہنی طور پر کم زور بچّوں کے احساسِ کم تری میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جب کہ چھوٹے خاندانوں میں ایسے بچّوں پر توجّہ دینا قدرے آسان رہتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں زیادہ تر جھگڑے بچّوں ہی سے شروع ہوتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں زیادہ افراد اکٹھے رہیں، وہاں آپس کے اختلافات بھی زیادہ جنم لیتے ہیں۔ اس کے برعکس انفرادی خاندان میں کم افراد کے باعث جھگڑے کم ہوتے ہیں اور اُن کو سلجھانا بھی آسان ہوتا ہے۔ نیز، انفرادی خاندانی نظام میں رہنے والی خواتین کو مشترکہ خاندان کی خواتین کی نسبت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، جب کہ مَردوں کے لیے صورتِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔

اس مختصر بحث کا مقصد کسی ایک نظامِ خاندان کو دوسرے پر فوقیت دینا ہرگز نہیں کہ ہر خاندان کی بُنیاد محبّت، عزّت و تکریم ہی پر رکھی جاتی ہے۔ بہرحال اچھا خاندان وہی ہے، جس میں بڑوں کی عزّت اور بچّوں کی تربیت اعلیٰ سماجی، مذہبی روایات اور اقدار کے مطابق کی جائے، تاکہ وہ معاشرے کے مفید رُکن بن سکیں۔

تازہ ترین