سندھ کی سرزمین کو جن لوگوں پر فخر ہو گا ان میں ایک نام نثار صدیقی کا بھی ہے۔ نثار صدیقی سے میرا پہلا تعارف تیس برس پہلے ہوا۔ میرے دوست سیرت اصغر ان دنوں، رتو ڈیرو،لاڑکانہ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر زیر تربیت تھے۔ وہ ایک بار ملے تو کہنے لگے کہ میں ایک غیر معمولی شخص کے ساتھ کام کرتا ہوں جس کا نام نثار صدیقی ہے اور پھر اگلے تیس سال تک میں اس غیر معمولی شخص کے غیر معمولی کارنامے سنتا رہا۔ نثار صدیقی کا تعلق خیر پور سندھ کے ایک نواحی گائوں سے ہے ۔ انھوں نے عملی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا لیکن بعد میں صوبائی سول سروس کے پُر خار میدانوں کی طرف نکل گئے۔وہ ان دنوں سیرت اصغر کے اسسٹنٹ کمشنر تھے۔
نثار صدیقی ایک معروف آدمی ہیں۔سندھ کا شاید ہی کوئی ضلع ہو گا جہاں انھوں نے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا کمشنر کے طور پر فرائض سرانجام نہ دیئے ہوں۔ حکومت ِ سندھ کے ہوم سیکرٹری اور پھر وزیراعلیٰ سندھ کے پر نسپل سیکرٹری۔ اسی حیثیت میں کام کے دوران پرویز مشرف نے اقتدار پہ قبضہ کرلیا اور بہت سے اور لوگوں کی طرح نثار صدیقی کو بھی نظر بند ہونا پڑا۔اس دوریش صفت کے نامہ اعمال میں صرف نیک نامی تھی۔ حکومت نے جرم کا کوئی نشان نہ پایا تو انھیں رہا کرنا پڑا۔ نثار صدیقی غالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے پھر سے کام میں جت گئے ؎
گر کیا ناصح نے ہم کو قید،اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد نثار صدیقی کی شخصیت نے ایک اور رخ لیا۔ اس رخ کا نام IBA سکھر ہے۔ انھوں نے اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھ کر ایک ناقابلِ یقین کارنامہ سرانجام دیا ۔ یہ ایسا ہی کوئی کارنامہ ہے جو سر سید نے علی گڑھ کی بنیاد رکھتے ہوئے کیا۔نثارصدیقی 1994 میں سکھر کے کمشنر تھے۔ اس پورے علاقے میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی معیاری ادارہ نہ تھا۔ ان کے اندر کا استاد اور دردمند دل رکھنے والا انسان صرف آنسو بہانے پہ کیسے قناعت کرتا۔ سکھر پبلک اسکول کے دوکمروں سے اس عظیم ادارے کا آغاز ہوتا ہے ۔ IBA کراچی سے درخواست کی گئی کہ اسے بھی اپنے سائے میں لے لے۔ اگلے دس سال جدوجہد اور نشوونما کے دن تھے۔ دوکمرے بڑھتے بڑھتے ایک مکمل یونی ورسٹی کا درجہ اختیار کرگئے اور پھر 2004میں IBA کراچی سے علیحدگی کے بعد ایک یونی ورسٹی کا چارٹر مل گیا۔ لوگ کہتے تھے کہ سکھر میں کوئی ادارہ نہیں ، کوئی عمارت نہیں اور قحط الرجال بھی ہے۔ نثار صدیقی نے ان تینوں باتوں کو جھٹلا دیا۔ بہترین استاد اکٹھے ہو گئے۔ ایک خوب صورت عمارت بن گئی اور ادارے نے بھی جنم لے لیا۔ تین ہزار طلباء ، چالیس فی صد خواتین جن میں سے اکثریت کا تعلق سندھ کے دیہی علاقوں سے ہے۔ آج IBA سکھر ایچ ای سی کی رینکنگ کے مطابق بزنس ایڈمنسٹریشن میں پاکستان کا تیسرا بہترین ا سکول ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ پہلے نمبر پر ہو گا۔ یہ خوش گمانی نہیں خوش یقینی ہے۔
پچھلے دنوں نثار صدیقی صاحب کی دعوت پر مجھے سکھر جانے کا موقع ملا۔یہ ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل تھی۔میری نظر جب اس عمارت میں کھلے ہوئے پھولوں پر پڑی تو ان کے رنگوں نے مجھے خوش گوار حیرت کا شکار کردیا۔ پھر میں نثار صدیقی صاحب سے ملا تو یوں لگا کہ اس سے کہیں زیادہ رنگ ان کی شخصیت میں ہیں۔ سادگی اور انکسار کا ایسا مرقع میں نے کم ہی دیکھا ہو گا۔ایک شخص اپنی زندگی کا آغاز ایک دورافتادہ ا سکول میں استاد کے طور پر کرتا ہے اور پھر ایک یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بن جاتا ہے۔سول سروس کی شاہراہ پر جو سنگ ِ میل طے ہوئے وہ اس پر مستزاد ہیں۔ 14اگست2014 کو صدرِ پاکستان نے انھیں ستارئہ امتیاز سے نوازا لیکن اس سے زیادہ محبت ان سینکڑوں طالب علموں اورہزاروں لوگوں کی ہے جو سندھ کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں۔ دیانت اور صداقت کا یہ مرقع، جسے وزیراعلیٰ بھی سفارش کرنے سے کتراتا ہے۔ کون کہتا ہے کہ ہماری صفوں میں اچھے لوگ نہیں۔ بس ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ بیس سال پہلے وہ لاہور آئے۔ جاننا چاہتے تھے کہ لمزLUMS جیسا ادارہ کیسے بنتا ہے۔ بابر علی نے کہا کم از کم بیس کروڑروپے درکار ہیں۔ وہ باہر نکلے اور جیب میںجھانکا۔ دو ہزارسے کم ہی نکلے لیکن یونی ورسٹی پھر بھی بن گئی۔ کام یابی جنون کی محتاج ہے۔ دولت تو محض ایک اضافی شے ہے۔ میں نے پھولوں میں گھرے نثار صدیقی سے ہاتھ ملایا اور انھیں بتایا کہ میں پینتیس سال سے اس ملاقات کا انتظار کررہا تھا۔ انھوں نے اخوت کو بہت سراہا اور اسے بھی ایک غیر معمولی ادارہ قرار دیا۔ میں دیر تک ان کے پاس بیٹھا رہا۔ ان کی آنکھوں میں ایک روشنی تھی اور امید بھی۔ اقبال کا یہ شعر شاید ہم روز پڑھتے ہیں لیکن اس روز مجھے یہ شعر اور بھی اچھا لگا
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی