اخبارات میں تین چار چیختی چنگاڑتی خبریں نظرسے گزریں ۔ ’’بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ہم ترقی کریں۔ جن معاشروں میں انصاف ختم ہوجائے وہ مٹ جاتے ہیں۔ محروم اور پسے ہوئے طبقے کی آوازیں ایوان تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ دل دہلادینے والے بیانات اور خبریں عوام کے یقین کو متذلل کررہی ہیں اور قوم میں احساس محرومی بڑھ رہاہے۔ ہم آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے۔ انصاف کے حصول کے لئےکوئی اصلاحات نظرنہیں آتیں‘‘ عوام لمبے عرصے تک عدالتوں کے چکرکاٹ کاٹ کر تنگ آجاتے ہیں۔ وکلاء بھی پوری طرح اپنے موکل کے ساتھ وقت کی کمی کے باعث پوری طرح انصاف نہیں کرسکتے۔ رشوت کا زور ہے۔ اصلاحات ایک طاقتورجمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ شاید عوام کی تکالیف کااندازہ نہیں کرسکتے۔ البتہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ضرور کرلیتے ہیں۔ بغیرکسی پلاننگ کے بجلی اور پانی کاحصول ناممکن ہے شہری سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ ہمیں روشنی کی کوئی کرن اصلاحات کی صورت میں نظرنہیں آتی۔ الغرض تمام سول ادارے اور اہلکار اپنے فرائض سے غافل نظر آتے ہیں۔لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین نے کالاباغ ڈیم اور چھوٹے ڈیموں کی تیاری کامسئلہ اپنی سیاسی اناکامسئلہ بنایاہواہے۔ محروم اور پسے ہوئے طبقے کی آواز کون سنتاہے؟ سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں ون مین شو بن چکی ہیں۔ مراعات یافتہ طبقہ ان سےعوام کو فائدہ نہیں اٹھانے دیتا۔ میں نے جنوبی پنجاب میں ایک بڑے مذہبی سیاسی لیڈرکے گھر کے قریب ایک پل دیکھاہے جو چوبیس گھنٹے میں سے بارہ گھنٹے کھلارہتاہے اور بارہ گھنٹے بند رہتاہے۔ یہ پل گذشتہ تیس سال سے اسی طرح ہے وہ لیڈراسلام آباد میں بڑی لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں مگریہ پل ابھی تک نہیں بن سکا۔ جس دن کوئی بڑاحادثہ ہوگیاتویہ فاتحہ پڑھنے کے لئے آجائیں گے۔ ایک اور طاقتور سیاسی رہنما نے اپنے گھر کے چاروں طرف سڑک بنوالی ہے مگرعوام کے لئے بیس فٹ کی سڑک نہیں بن سکی۔ اس میں بیرونی طاقتیں کیونکرملوث ہوسکتی ہیں؟ یہ خود نہیں چاہتے کہ قوم اور ملک ترقی کرے۔ البتہ ان کے شاہانہ ٹھاٹ اورقیمتی گاڑیاں اور مزید مطالبات دیکھ کر بیرونی طاقتیں خوش ضرور ہوتی ہیں ان کا کوئی قصور نہیں کہ ہم ترقی نہ کریں۔ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کایہ حال ہے کہ اگرکوئی کارکن ان کے طرز عمل پر اعتراض کرے تو اسے ناپسندیدہ قررادے دیاجاتاہے۔ اس طرز عمل پر بیرونی طاقتوں کو کیوں قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے؟ پاکستان اور ہندوستان ایک وقت میں آزاد ہوئے مگر پاکستانی قیادت نے ’’کالاباغ ڈیم‘‘ آج تک نہیں بننے دیا۔ ہندوستان کی ایک مثال میں نے دیکھی ہے کہ جب وہاں بھاکڑاننگل پروجیکٹ بن رہاتھا۔ یہ گنگااور جمناکے نکلنے کی جگہ پر واقع ہے یہاں پر یوپی اور پنجاب کے درمیان تنازعہ اٹھ کھڑاہوا۔ مگراندراگاندھی کی سرکار اور گیانی ذیل سنگھ جو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے نے مل کر اس تنازع کو حل کردیا۔ ہندوستان کی مختلف سیاسی حکومتیں اور پارٹیاں بھی چھوٹے چھوٹے تنازعات کو حل کر چکی ہیں اور ہندوستان تقریباً اسی چھوٹے اور پانچ بڑے ڈیم تعمیرکرچکاہے مگر یہاں ذاتی مفادات کے تحت کالاباغ ڈیم تعمیرنہیں ہورہا اس میں بیرونی طاقتوں کا کیاقصور ہے۔ہم اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ ہمارے رہنما اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داریاں بیرونی طاقتوں پر نہیں ڈال سکتے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ ہمارے سیاسی رہنما لندن اور دبئی جاکر ایسے بیانات جاری کرتے ہیں جن کا انہیں علم نہیں ہوتا اور اب تو ایسا لگتاہے کہ ہمارادوسراگھردبئی ہوگیاہے۔اس میں بیرونی طاقتوں کاکوئی قصور نہیں۔ ہمارے جو حکمران دبئی اور لندن میں مقیم ہوتے ہیں ان پر ہم پابندی لگائیں اورانہیں ملک سے باہرنہ جانے دیں۔کیا کبھی کوئی ہندوستانی سیاستدان یو اے ای اور لندن میں مقیم رہاہے اور ہمارا یہ کہناکہ بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ہم ترقی کریں۔ اس میں ان کاکوئی قصور نہیں ہے دشمن تو دشمن ہے اس سے بھلائی کی توقع کیوں کریں۔ ہمارے ایک سابقہ حکمران جو ہماری دفاعی قوتوں کا امین بھی رہاہے۔ وہ شدید بیماری کی حالت میں دبئی جاکربالکل ٹھیک ہوگیااور دھڑلے سے سیاسی بیانات جاری کرتاہے اور سیاسی سرگرمیاں بھی کررہاہے۔ ایسے میں بیچارے عوام آسمان کی طرف ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اب یہ کہناہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ہم ترقی کریں۔ ہمارے سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی نہیں کر سکتے۔ ہم خدا سے صرف دعامانگ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے حال پررحم کرے۔ جس ملک میں طاقتور افراد اپنی مرضی کے فیصلے قوم پر مسلط کرنے لگیں وہاں قوم کس سے فریاد کرے۔ ہمیںصورتحال کاجائزہ لیناچاہئے ان لوگوں کو بھی بیرون ملک جانے کی اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دیتے ہیں جو ہمارے تمام رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ محض یہ کہہ دیناکہ بیرونی قوتیں قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں کافی نہیں۔ ہمیں اس پالیسی کا جائزہ لیناچا ہئے۔ ایک بیان اور اخبارات کی زینت بناہواہے جن معاشروں میں انصاف ختم ہوجائے وہ مٹ جاتے ہیں۔ غریب عوام اس سلسلے میں کیاکرسکتے ہیں؟ ہمارے حکمراں اور سیاسی لیڈر ان بیانات پربھرپورتوجہ کریں معاشروں میں انصاف قائم کرنا اور اس کو سہولت پہنچانا طاقتور عدلیہ اور انصاف قائم کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ قوم نے اور وکلاء نے اور جمہوری قوتوں نے اس جدوجہد میں کافی قربانیاں دی ہیں۔وہ ایک قابل تقلید مثال ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی تحریک میں جس طرح عوام، وکلاء اور دانشورمیدان میں آگئے وہ ایک بہترین مثال ہے۔ انہوں نے ڈکٹیٹرشپ کا مقابلہ کیا۔ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں بھرپور انصاف فراہم کریں۔ وکلاء اور عوام کو سہولتیں فراہم کریں۔ سیاسی معمہ سازیہ نہ کہیں کہ بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں اور جماعتی سرگرمیاں ایک آدمی کی پالیسی کے تحت چلتی ہیں۔ اپنی ذمہ داری بیرونی طاقتوں پر نہیں ڈالنی چاہئے ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ہماری دفاعی قوتیں اور ان کی سرگرمیاں ملک دشمنوں کے لئے ایک آہنی دیوار بن چکی ہیں۔