• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے بچو!گئے وقتوں میں بہت سے ایسے کھیل کھیلے جاتے تھے ،جن سے آپ واقف نہیں ہوں گے، بہت ہی خوب صورت دور تھا، جب شام ہوتے ہی بچے گلی کوچوں میں کھیلنے نکل جاتے، جن گھروں کے صحن بڑے بڑے ہوتے، وہاں شام کے وقت بڑی رونق اور شورغل رہتا تھا، لیکن یہ شور ایسا نہ تھا کہ برا لگے، بڑے بھی اپنے بچوں کو کھیلتا دیکھ کرمحظوظ ہوتے تھے۔ 

لڑکے گلی ڈنڈا، پھٹو گرم، چور سپاہی بنتے اور کرکٹ کھیلتے، لڑکیاں کھوکھو، کوڑا چھپائی، چھین چھپائی، اونچ نیچ اور زیادہ تر اپنی گڑیا کے کپڑے بناتیں اور ان کی شادیاں کرتی تھیں، یہ کھیل کم وبیش ہر گھر گلی کوچوں میں کھیلے جاتے تھے۔ ذیل میں ایسے ہی چند کھیلوں کے بارے میں ہم آپ کو بتارہے ہیں جو ٹیکنالوجی کے اس دور میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

پہل دوج

پہل دوج ڈیڑھ دہائی قبل تک ایک مقبول کھیل ہوا کرتا تھا، جو کہ عموماً لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، اس کھیل کے کل لوازمات میں صرف ایک چاک یا کوئلہ اور زمین کا چھوٹا سے چھے سے آٹھ فٹ لمبا مستطیل قطعہ درکا ہوتا تھا، لڑکیاں چاک کی مدد سے اس کھیل کی لمبی مستطیل کی شکل میں آؤٹ لائن بنایا کرتیں، جس میں ایک سے آٹھ عددخانےبناتی تھیں، ساتھ ایک پتھر کی ٹھیکری ہوتی تھی، اسے ان خانوں میں باری باری اچھالا یا پھینکا جاتا۔

جسے ان خانوں میں ایک ننگے پیر اچھل کود کرتے اٹھایا جاتا تھا اور واپسی نقطہ پر اچھل کود کرتے جایا جاتا ،تاکہ اگلے عدد تک رسائی کی جاسکے، یہ اچھالے جانے والی ٹھیکری یا کھیلنے والے کا پیران چاک سے بنے خانوں کی آؤٹ لائن کو چھو جاتا یا کہیں باہر چلا جاتا تو وہ کھلاڑی اپنی باری ہار جاتا تھا۔

پٹوگرم

یہ دیہات اور شہروں کے گلی کوچوں کا بہت مقبول کھیل تھا، جسے عموماً مختلف لڑکوں پر مشتمل دو ٹیمیں کھیلا کرتی تھیں، لڑکوں کی تعداد کوئی مخصوص نہیں ہوتی تھی، اس کھیل کے کل لوازمات میں ایک ٹینس یا ربڑ کی گیند اور مٹی کے برتنوں اور مٹکوں وغیرہ کے ایسے چھوٹے چھوٹے ٹھیکرے ہوتے تھے جو ایک دوسرے کے اوپر اس طرز پر رکھے جاتے کہ وہ ایک چھوٹا سا مینارہ دکھائی دیتا، اس کھیل کا آغازیوں ہوتا کہ کچھ فاصلے سے گیند کے نشانے سے اس مینارے کو گرایا جاتا اور پھر اسے دوبارہ کھڑا کیا جاتا، جب کوئی کھلاڑی مینارہ بنانے کی کوئی کوشش کرتا تو اسے مخالف ٹیم کے کھلاڑی اس گیند سے شدید ضرب لگاتے جو ٹیم مینارہ بنالیتی وہ جیت جاتی۔

کوڑا جمال شاہی

اس کھیل میں شریک بچے ایک گول حلقہ بنا کر اکڑوں بیٹھ جاتے تھے اور اپنا سر اپنے گھٹنوں میں دبا لیتے تھے،ایک لمبا کپڑا یا دوپٹہ چوٹی یا پراندے کی طرز سا ہوتا تھا وہ کوڑایا چابک کہلاتا تھا، ایک کھلاڑی ہاتھوں میں کوڑا لہراتا اس حلقے کے گرد کھوما کرتا تھا، اکڑوں بیٹھے کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کے پیچھے یہ چپکے سے رکھ دیا جاتا اور اگلا چکر مکمل کیا جاتا تھا، اس دوران اگر وہ کھلاڑی اپنے پیچھے رکھے کوڑے کو نہ دیکھتا تو اسے ایک کوڑا لگایا جاتا۔

گلی ڈنڈا

یہ کھیل زیادہ تردیہات میں اب بھی مقبول ہے لیکن شہروں میں کہیں نہیں کھیلا جاتا یہ کھیل دو یا دو سے زائد کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا جاتا تھا، گلی چند انچ لمبی لکڑی کو باریک کرکے نوکیلی شکل میں بنائی جاتی تھی، کھلاڑی ایک ڈنڈے کی مدد سے گلی کو پہلے ہوا میں اچھالتا اور پھر ڈنڈا گھماتے ہوئے ایک شدید ضرب لگا کر جتنا دور ممکن ہوسکے گلی پھینکتا، اس سے پہلے کہ کوئی کھلاڑی گلی ڈھونڈ لے گلی پھینکنے والے کو دوڑ لگا کر ایک متعین جگہ چھونا ہوتی تھی۔

کنچے

کنچے یہ شیشے سے بنی چھوٹی سی گول اور خوب صورت رنگ برنگی گولیاں ہوا کرتی تھیں، اس کھیل کےلئے کچھ گولیاں اور زمین پر ایک چھوٹا سا ہول درکار ہوتا تھا، یہ کھیل اس طرح سے کھیلا جاتا تھا کہ کھلاڑی سب سے پہلے گولیوں کو زمین پر بکھیر دیتا تھا اور پھر باری باری زمین پر انگوٹھا رکھ کر کچھ فاصلے پرپڑی دوسری گولی پر نظریں مرتکز کرتے ہوئے نشانہ لیتا تھا اور پھر اپنی درمیانی انگلی اور دوسرے ہاتھ کی انگلی کی مدد سے اسے یوں ضرب لگاتا تھا کہ وہ گولی زمین پر کئے گئے سوراخ میں چلی جائے، یہ دو سے زائد کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا جاتا تھا۔

چور سپاہی

چور پولیس کا کھیل دیگر کھیلوں کی طرح بہت دلچسپ ہوتا تھا، اس کھیل کے لیے بچے دو ٹیموں میں تقسیم ہوجاتے تھے، ایک ٹیم پولیس کی ہوتی تھی اور دوسری چوروں کی، اس کھیلکے لیے کسی قسم کی کوئی چیز درکار نہیں ہوتی تھی، اس کھیل میں ایک فرضی جیل میں بند چور جیل توڑ کر بھاگ جاتے تھے اور پولیس ٹیم کا کام ہوا کرتا تھا کہ وہ لازمی ان چوروں کو پکڑے اور انہیں واپس اسی جیل میں لائے، جہاں سے وہ فرار ہوئے تھے، چوروں کا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے پکڑے گئے ساتھیوں کو چھڑا لے جائیں، یہ کھیل اس وقت اختتام پذیر ہوتا تھا جب تمام فرضی چور پکڑ لئے جاتے۔

کھوکھو

دراصل یہ انگریزوں کا بنایا ہوا کھیل ہے ،جسے وہ گوگو کہتے تھے، لڑکیوں میں یہ کھیل بے حد مقبول تھا، دیگر کھیلوں کی طرح وہ اپنے گھر اسکول کے صحن اور گلی کوچوں میں دو ٹیمیں بناکر کھیلتی تھیں، اس کھیل میں چاک کی مدد سے ایک لمبی افتی لکیر کھینچی جاتی تھی، جس کے دونوں کناروں پر اور درمیان میں کھلاڑیوں کے کھڑے رہنے کےلئے گول دائرے بنائے جاتے ہیں۔

مثلاً اگر ٹیم میں پانچ کھلاڑی ہیں تو چار دائرے بنائے جائیں گے اور پانچواں کھلاڑی مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو پکڑنے کےلئے دوڑ لگاتا تھا، گول دائروں میں کھلاڑی ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑے رہتے تھے، مگر اس پانچویں کھلاڑی کو یہ اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس افقی لکیر کو پار کرے، پانچواں کھلاڑی ان حلقوں میں کھڑے کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کو کھوکر کے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے پیچھے لگا سکتا تھا اور وہ خود دائرے میں کھڑا ہوجاتا۔اس کے علاوہ بھی بہت سے کھیل کھیلے جاتے تھے جیسے آنکھ مچولی ، برف باری ، پکڑم پکڑائی، وغیرہ۔

تازہ ترین