• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: نواز سلامت۔۔ ڈنمارک
لاہور سے کوئی پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستان کا ایک بہت تاریخی شہر واقع ہے "قصور"۔ قصور پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں بھی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
مشہور زمانہ صوفی شاعر بابا بلھے شاہ اپنے آبائی شہر قصور کے حوالہ سے فرماتے ہیں:
تسی اچے، تہاڈی ذات وی اچی تسی وچ اچ دے راہندے
اسی قصوری، ساڈی ذات قصوری اسی وچ قصور دے راہندے
کروڑوں پاکستانی قصور شہر کو ملکہ ترنم نور جہاں کی وجہ سے بھی جانتے ہیں 1965 کی جنگ  کے دوران جب قصور سیکٹر پر جنگ ہو رہی تھی تو ملکہ ترنم نور جہاں نے فوجی جوانوں کے جوش بڑھانے کے لیے ایک ترانہ گایا تھا جس کے بول کچھ اس طرح تھے
میرا سوہنا شہر قصوری نی
ہویا دنیا وچ مشہور نی
آج بھی یہ ترانہ قومی تہواروں پر سننے کا اپنا ہی ایک مزا ہے، کچھ لوگ قصور کو قصوری  فالودے اور مٹھائی کی وجہ سے بھی جانتے ہیں اور تو اور قصور شہر پاکستان کے بہت سے نامور سیاستدانوں کی وجہ سے بھی جانا پہچانا جاتا ہے۔
ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی،  دعا یہ ہے کہ ہمارا اور خاص طور پر ہمارے ملک پاکستان کا وقت اچھی سمت میں ہی بدلے تو بہتر ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں وقت کچھ غلط سمت کی جانب دوڑ لگائے ہوئے ہے۔ آج جب بلھے شاہ اور نور جہاں کے شہر قصور کا نام لیا جاتا ہے تو ذہن فوری طور پربچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات کی طرف چلا جاتا ہیں، آج ٹی وی پر جنسی زیادتی کے واقعات پر ایک رپورٹ دیکھی تو اپنے ہاتھوں کو روک نہ سکا اور اپنے دل کی بھڑاس اور غصہ لفظوں کی شکل میں نکالنے بیٹھ گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کے جنوری سے جون کے مہینے تک پاکستان میں 1300 کے قریب  بچے جنسی زیادتی کا شکار بنے ہیں۔ یہ رپورٹ سنتے وقت اگر سچ کہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ایک مستحکم دماغ رکھنے والا کوئی بھی شخص ایسے ہونے والے واقعات برداشت نہیں کر پائے گا۔  ابھی یہ رپورٹ دماغ میں گھوم ہی رہی تھی کہ قصور سے اغوا ہونے والے کچھ اور بچوں کی خبر نشر کر دی گئی۔
ابھی کل کی ہی بات لگتی  ہے جب قصور میں تین سو کے قریب معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ بننے کی خبر میڈیا میں شور شرابہ اور ریٹنگز کا سبب بنے ہوئی تھی، اور بہت سے بچوں کو تو چھ سال کی ننھی منھی زینب کی طرح قتل بھی کر دیا گیا تھا۔تین بچوں کے تو قتل کی خبر بھی مل چکی ہے۔
سوچنے کا وقت ہے کہ ہم سب کہاں غلطی کر رہے تھے کہ اس قسم کے واقعات کو روکنے میں مکمل ناکام ہوئے؟ میڈیا اور این۔ جی۔اوز کی چلائی گئی مہمیں کیوں فیل ہوئیں؟ اور آج پھر قصور کے علاقے چونیاں سے بچے کیوں اغواہ ہو رہے ہیں اور زیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں؟
ان سب سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک سروے کیا۔ بہت سے دوستوں نے اس میں حصہ لیا اور اپنی رائے دی، کچھ نے کہا کہ اس سب کی ایک بڑی وجہ غربت ہے اور بچوں کو پیسوں کا لالچ دیا جاتا ہے, کچھ دوستوں نے کم علمی اور جہالت کو وجہ قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے اپنی رائے دی کہ مختلف بیداری مہمیں چلانے کی ضرورت ہے اور کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق یہ سب علاقے کے سیاستدانوں کے درمیان چپقلش اور عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے۔
میری سمجھ کے مطابق ایسے جرائم کے پیچھے جب انسانوں کی شکل میں  چھپے ہوئے درندوں کو گرفتار کیا گیا تو پولیس ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے سے کتراتی رہی کیونکہ ان درندوں کو علاقہ کے سیاست دانوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومتی نمائندے بھی متاثرہ  خاندانوں کو بجائے اس کے کہ انصاف دلاتے  بلکہ مالی امداد کی شکل میں لالچ دے کر ان کا منہ بند کروا دیتے۔ اگر کوئی ایماندار افسر انصاف دلانے کی کوشش بھی کرتا تو کبھی کسی ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کر دیا جاتا اور کبھی ڈی۔پی۔او کو، اس سے زیادہ آج تک کچھ دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا۔۔
میرے نزدیک ایسے واقعات کو روکنا تب تک نا ممکن ہے جب تک ایسے گھناونے جرم کی سزا سات سال، دس سال، یا عمر قید نہیں۔۔۔ بلکہ سرعام موت کر دی جائے۔ اگر آج واقعات دوبارہ ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ ایک ہی ہے۔۔ "کمزور قوانین" اور ان کا عمل درآمد۔۔ جب تک پاکستان میں ایسے جرم مرتکب کرنے والے مجرموں کو عبرتناک سزا نہیں دی جائے گی تب تک ان جرائم کی کوئی روک تھام نہیں ہو سکتی۔. ایسے درندوں کے خلاف بلا تفریق. رنگ، نسل اور مذہب ہم سب کو ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے.
میں پاکستان کی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ جنسی زیادتی کے متعلق قوانین اور ان کے عمل درآمد میں جلد از جلد تبدیلی کریں تا کہ ایسی جرائم کی سوچ رکھنے والے درندہ صفت انسان جب بھی ایسی گھناونی حرکت کرنے کا سوچیں تو سزا کی صورت میں اپنا انجام سوچ کر ہی ان کی روح کانپ اٹھے۔
تازہ ترین