امریکی شہر ٹیکساس میں’’ہائوڈی موڈی‘‘نامی جلسہ شروع ہوا تومیں بھی بہت توجہ اور انہماک سے یہ مناظر دیکھ رہا تھا اورسوچ رہا تھا کہ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم عمران خان ہر دور میں ٹرینڈ سیٹر رہے ہیں۔
انہوں نے امریکہ جا کر جلسے سے خطاب کیا اور اب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بھی ان کی تقلید کر رہا ہے۔ خدا خوشامد اور چاپلوسی سے بچائے، سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہینڈسم اور آکسفورڈ سے پڑھے وزیراعظم کا اس ٹھگنے چائے والے کیساتھ کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ جلسوں اور دھرنوں کی بات ہو تو میرے کپتان کو کون مات دے سکتا ہے۔
اس بار مودی نے پچاس ہزار شرکا سے خطاب کیا ہے تو اگلی بار میرا کپتان ایک لاکھ لوگ جمع کرکے دکھا دے گا۔ اور پھر معاملہ شرکا کی تعداد کا نہیں لذت تقریر کا ہے۔ مودی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس نے جو تقریر کی وہ کسی عالمی فورم کے لئے بیشک مناسب ہو مگر جلسہ عام کے لئےہرگز موزوں نہ تھی۔
شرکا کا لہو گرمانے کے لئے مودی نے سونیا گاندھی کو آڑے ہاتھوں لیا نہ راہول گاندھی پر جملے کسے، یہ بھی نہیں کہا کہ میں واپس جاتے ہی جیل میں قید فلاں اپوزیشن لیڈر کے سیل سے اے سی اتروا دونگا۔ مجھے توقع تھی کہ نریندرمودی بھارت میں کرپشن سے متعلق اظہار خیال کرے گا۔
اعداد وشمار سامنے آئیں گے کہ اس کے ملک میں روزانہ کتنی لوٹ مار ہوتی ہے، منی لانڈرنگ کے ذریعے کتنا پیسہ بیرون ملک جاتا ہے، سوئس بنکوں میں بھارتیوں کے کتنے ارب ڈالر پڑے ہیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ مودی کی طرف سے ببانگ دہل یہ اعلان ہوگا کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔
میں سوچ رہا تھا مودی بھارت کی ان ریاستی پالیسیوں سے متعلق بات کریں گے جس کے تحت ہندوازم کو اُبھارا گیا، مودی انکشاف کریں گے کہ ان کی سرکار نے راشٹریہ سیوک سنگھ، شیو سینا اور بجرنگ دَل جیسے مسلح گروہ پیدا کئے اور انہیں ’’را‘‘ نے ٹریننگ دی۔ مودی سے یہ توقع بھی تھی کہ کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کی خفیہ سرگرمیوں اور کارناموں پر روشنی ڈالیں گے مگر مودی توبہت بودے اور کم ہمت نکلے۔
ان کی تقریر انتہائی پھسپھسی ہی نہیں بلکہ بہت بدمزہ بھی تھی۔ اس لئے مجھے تو ہر لمحہ نہایت شدت سے یہ احساس ہوتا رہا ہے کہ کپتان کی صورت میں قدرت نے ہمیں کس قدر عظیم انسان سے نوازا ہے۔
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے بعض مستندقسم کے دانشور یہ بتا رہے ہیں کہ حکومت سنبھالنے کے بعد کپتان پہلی بار اس قدر طویل غیر ملکی دورے پر گئے ہیں اور زلزلے کی صورت میں قدرت نے یہ چتائونی دی ہے کہ عمران خان کے بغیر تم پر اللہ کا عذاب آتا رہے گا۔ بیشک عمران خان کو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے لئے منتخب کرلیا ہے۔
بعض پٹواری قسم کے لوگ اوردوٹکے کے لفافہ صحافی اس بات کا تمسخر اُڑا رہے ہیں حالانکہ یہ بات حرف بحرف سچ ہے۔
کیا عمران خان کے برسراقتدار آنے پر وفاقی وزیر ماحولیات نے یہ خوشخبری نہیں دی تھی کہ بارشیں اور خوشگوار موسم دراصل عمران خان کے حکومت سنبھالنے پر اللہ کا انعام ہے اب اگر کوئی آفت آتی ہے تو اسے اللہ کے عذاب کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ میرے کپتان کا یہ وصف بھی کمال ہے کہ ملنے والوں کو بہت جلد اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ اب دیکھئے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ان کے مداحوں میں شامل ہوگیا ہے۔
بقول زُلفی بخاری ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پوری دنیا ان سے ملنا چاہتی ہے مگر وہ عمران خان سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ اب اگر کسی سپر پاور کا صدر یہ بات کہتا ہے تو ملک کے لئے اس سے بڑے اعزاز کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ اور تو اور جناب ٹرمپ نے کپتان کو ایران سے بات چیت کا مینڈیٹ بھی دیدیا ہے۔
میرے کپتان کی شان ہی نرالی ہے۔ کپتان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ترنگ میں آتا ہے تو سب مصلحتیں بھول جاتا ہے اور اس کی زبان سے سچ اور صرف سچ جاری ہو جاتا ہے۔ اور کپتان کی یہی خوبی اسے اپنے ہم عصر حکمرانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اندیشہ ہائے دوردراز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جب کپتان کے منہ سے کھراسچ برآمد ہوتا ہے تو مجھے مولانا ظفرعلی خان کا ناقابل فراموش شعر یاد آتا ہے:
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
دو دوٹکے کے صحافی تو کپتان کی تقریروں میں سے من چاہے ٹوٹے لیکر کسی کو اُکسانے اور اشتعال دلانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر سچ پوچھیں تو مجھے ان کی باتوں سے معصومیت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
کونسل آن فارن ریلیشنز میں ان سے بہت تابڑ توڑ سوالات کئے گئے مگر انہوں نے کسی ماہر بلے باز کی طرح تمام سوالات کی گیندوں کو بائونڈری کی طرف دھکیل دیا۔ مثال کے طور پر جب ان سے بنیاد پرستانہ اسلام سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اسلام تو بس ایک ہی ہے اس میں ماڈرن اسلام یا رجعت پسند اسلام کی کوئی تخصیص نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ وہ معاشی بحران سے نمٹ رہے ہیں، افغان ایشو کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ پریشانی لاحق ہے کہ اب ایران اور سعودی عرب کے درمیان کیا ہوگا، ایک طرف ایران، دوسری طرف افغانستان اور اب انڈیا، میں تو ہاٹ پلیٹ (پنجابی کے الفاظ مستعار لیں تو تتے توے)پر بیٹھا ہوں۔ اور پھر میزبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہوتا۔ پھر خود ہی وضاحت کی کہ وہ محض کرکٹر ہونے کی وجہ سے یہ دبائو جھیلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گویا اب کپتان کو احساس ہوتا جا رہا ہے کہ حکمرانی کرنا اتنا بھی آسان نہیں۔
مجھے اب بھی یقین ہے کہ زیرنظر سطورآپ تک پہنچیں گی تو 27ستمبر کو ان کی تقریر کے بعد دنیا یوٹرن لے چکی ہوگی اور کشمیر کی آزادی کا علان کردیاگیا ہو گا۔ رہی بات موازنے کی تو میرے خیال میں کپتان اس قدر عظیم شخصیت ہیں کہ ان کا مودی جیسے ٹھگنے تو کیا دنیا کے کسی بھی وزیراعظم سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔