• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھلاتضاد … آصف محمود براہٹلوی
جون2016ء سے آج تک برطانوی عوام بریگزٹ، ڈیل نو ڈیل، پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ، موجودہ وزیراعظم بورس جانسن تیسرے وزیراعظم ہوں گے اگر ڈیل پر حتمی فیصلہ نہیں ہوپاتا، شاید انہیں بھی اپنے سابقہ ساتھی وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے کی طرح اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑیں،جب یورپین یونین میں رہنے یا نہ رہنے کیلئے ریفرنڈم ہوا مین اسٹریم کی بڑی جماعتیں حکمران کنزرویٹو، لیبر پارٹی، لب ڈیم سمیت دیگر جماعتوں نے یورپین یونین میں رہنے یا یورپ کو چھوڑنے کیلئے واضح حکمت عملی نہیں اپنائی تھی۔قیادت خود کنفیوژ تھی جب کہ اس وقت یوکپ اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے بریگزٹ کیلئے بھرپور کمپین چلائی تھی، یورپ میں رہنے کیلئے عوامی رائے عامہ ہموار نہیں کی گئی جس کی وجہ سے غالباً 51فیصد بریگزٹ کے حامی تھےاور 48فیصد یورپ میں رہنے کے حامی تھے، ہونا تو یہ چاہئے تھا بریگزٹ کے ووٹوں کی اکثریت تھی، بریگزٹ پر فیصلہ ہوجاتا یہی جمہوری فیصلہ تھا، پھر پارلیمنٹ میں غیر ضروری بحث مباحثہ شروع ہوگیا۔وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، ان کی جگہ تھریسامے آگئیں، انہوں نے بھی اس ایشو سے جان چھڑانے کیلئے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیا، اس سوچ کے ساتھ کہ ہوسکتا ہے وہ عوام کی اکثریتی رائے سے یورپین یونین کےساتھ مذاکرات کرکے برطانیہ کے مفاد میں ڈیل کرلیں گی لیکن وہ ڈیوڈ کیمرون والی اکثریت بھی کھو بیٹھیں، تقریباً دوبارہ منتخب ہونے کے بعد طویل پارلیمنٹری سیشن میں حزب اختلاف اور اپنی ہی پارٹی کے آراکین کی مخالفت کی وجہ سے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل انہیں بھی اقتدار چھوڑنا پڑا پھر نئے وزیراعظم سے قبل پارٹی لیڈر شپ کیلئے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن اور جان ہنٹ کے درمیان پارٹی قیادت اور ملکی قیادت کیلئے پارٹی ممبران کے ذریعے بورس جانسن کے سر پر قیادت کا سہرا سجا، انہوں نے آتے ہی 31اکتوبر کی ڈیڈ لائن میں بریگزٹ کا اعلان کردیا، ڈیل ہو نہ ہو، بغیر ڈیل کے NO IF NO BUT اس ماہ کے آخر میں برطانیہ آفیشلی یورپین یونین چھوڑ دےگا، سیاست میں بعض اوقات تاش کے پتوں کی طرح یکہ پھیکنا پڑتا ہے بورس جانسن نے بھی ایسا ہی کیا، پھر پارلیمنٹ کو بھی پانچ ہفتوں کیلئے معطل کیا ،بعد میں ملک کی بڑی عدالت کے گیارہ ججز نے متفقہ طور پر پارلیمنٹ کو بحال کردیا، ادھر مانچسٹر میں حکمراں پارٹی کی سالانہ کانفرنس کا آغاز بھی ہوچکا ہے، بریگزٹ کے حق میں حامی اور مخالفت میں مظاہرے جاری ہیں۔وزیراعظم دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں ڈیل ہو یا نہ ہو اس ماہ کی آخری تاریخ کو ہمارے اعلان کردہ پلان کے مطابق عمل درآمد ہوگا بلکہ ملک کے طول وعرض میں بریگزٹ کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے مختلف پلیٹ فورمز پر پوسٹرز آویزاں کردیئے گئے ہیں، ریڈیو، ٹی وی سمیت ڈیجیٹل مہم شروع ہوچکی ہے، بریگزٹ کا ماحول بن چکا ہے، ادھر دوسری جانب پورپین ممالک کی جانب سے ایک نئی ڈیل یا مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا، حکمراں پارٹی کی سالانہ کانفرنس کے اختتام پر وزیراعظم بورس جانسن بریگزٹ پر نئی ڈیل بھی دے سکتے ہیں، بورس جانسن کا ماضی گواہ ہے کہ وہ مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ بھی ہے کہ یورپین ممالک کا ایک رکن ملک ویٹو کرسکتا ہے جس سے پورا پلان ہی ختم ہوسکتا ہے، کچھ بھی نہ بن پڑا تو ملک میں کرسمس سے قبل نئے انتخابات کا اعلان بھی متوقع ہے جب کہ حکمراں ٹوری کی انتھیا میکنٹائر ایم ای پی بریگزٹ کے بعد کامن ویلتھ ممالک سمیت مڈل ایسٹ سے نئے تجارتی معاہدوں کا پلان بھی ترتیب دے رہی ہیں، یقیناً اس غیر یقینی فضا کا خاتمہ اس ماہ کے آخر میں ہو ہی جائے گا آج سے کائونٹ ڈائون شروع ہوچکا ہے۔
تازہ ترین