• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے گھروں میں ”مردان خانے“ اور ”زنان خانے“ ہوتے تھے اب اخباروں میں ہوتے ہیں۔ رنگین صفحات میں ”رنگین“ تصویریں شائع ہوتی ہیں اور بلیک اینڈ وائٹ صفحات میں بلیک اینڈ وائٹ قسم کے مردوں کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نیوز پیج پر مردوں کا قبضہ اور فیچر والی سائیڈ پراچھے ”فیچر“ والی خواتین قابض دکھائی دیتی ہیں۔ خبروں والے صفحات پردو انچ تصویر کی اشاعت کے لئے بھی بڑے کڑے معیارمقرر ہیں اور یوں ہماشا کی تصویر شائع نہیں ہوتی۔ خبروں والے صفحات پر کبھی کبھی کسی خاتون کی تصویر بھی شائع ہو جاتی ہے مگر اس خاتون کا اغوا ہونا ضروری ہے بلکہ اگر آبروریزی کا کیس ہو تو یہ اضافی کوالیفکیشن ہے۔ گاہے گاہے کسی سیاستدان خاتون کی تصویر بھی ان صفحات میں شائع ہوجاتی ہے تاہم اس کیلئے عمر کی حد مقرر ہے زیادہ سے زیادہ چالیس برس ہے۔ اوور ایج خواتین کی تشہیر مشرقی اقدار کے منافی ہے۔
ابھی اخبار کے ”مردان خانے“ کا ذکر مکمل نہیں ہوا تھا کہ درمیان میں خواتین کا ذکر آ گیا۔ ”مردان خانے“ یعنی خبروں والے صفحے میں تصویر کے علاوہ سرخی کے سائز کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں مثلاً اگر ایک پرامن جلوس نکلتا ہے تو اس کی سنگل کالم سرخی ہوگی، لیکن اگر کوئی چھوٹا سا جلوس دو تین بسوں کو آگ لگا دیتا ہے اور توڑپھوڑ کرتا ہے تویہ خبر کم از کم چار کالم سرخی کی مستحق بن جاتی ہے تاکہ اگلے دن زیادہ بسیں جلائی جائیں۔ سرخی وغیرہ کے ضمن میں یہ اصول مرحومین کیلئے بھی برتے جاتے ہیں! یعنی مرحوم نے اگرملک و قوم کیلئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اوراس کاکوئی رشتہ دار اخبار میں ملازم بھی ہے تواس کی وفات کی خبر سنگل کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوسکتی ہے۔ لیکن مرحوم اگر فلم یا ٹی وی کا اداکار ہے تو اس پر سرخی کے سائز کی کوئی حد متعین نہیں بلکہ اس کیلئے اخبار کاخصوصی ضمیمہ بھی نکالاجاسکتا ہے۔ جہاں تک اخباروں کے ”زنان خانے“ کا تعلق ہے یہ اخباروں کا سب سے بارونق حصہ ہوتا ہے۔ اس میں اودے اودے، نیلے نیلے اورپیلے پیلے پیرہن نظر آتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھیں تو ہر پیکر تصویر کاپیرہن کاغذی ہوتا ہے ا ور تہذیب حاضر کے حوالے سے فریادی دکھائی دیتا ہے۔ اخباروں کے ”زنان خانے“ میں تصویر کی اشاعت کے لئے کوئی کڑا معیار مقرر نہیں۔ ماسوائے اس کے کہ جوشکل نظرآئے ”تصویر“ نظرآئے البتہ سائز ضرور متعین ہے۔ یعنی یہ تصویر آدھے صفحے سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ اخباروں کے یہ صفحات ان شرفا کیلئے نعمت ِ غیر مترقبہ ہیں جو راہ چلتی خواتین کو دیکھ کر آنکھیں جھکا لیتے ہیں۔ قیامت کے دن ان سے اگر عورت کے سراپاکے بارے میں سوال ہو تو وہ کم از کم ان تصویروں کی وجہ سے ندامت سے بچ جائیں۔ خواتین کی یہ تصویریں صرف خواتین کے صفحات پر شائع نہیں ہوتیں بلکہ ان کے لئے کسی بھی صفحے کو خواتین کے صفحے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ تصویریں سیاسی سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے شائع کی جاتی تھیں۔ ان دنوں یہ تصویریں سیاسی سرگرمیاں زیادہ ہونے کی وجہ سے شائع کی جاتی ہیں تاکہ اعصابی کھچاؤ کوکم کیا جاسکے حالانکہ سیاسی سرگرمیاں اور ان تصویروں کی بیک وقت اشاعت سے قوم کو ”گرم سرد“ ہوسکتا ہے۔
ویسے یہ ”مردان خانے“ اور ”زنان خانے“ اخباروں میں نہیں حکومت او راپوزیشن میں بھی ہیں البتہ ان کی صورت مختلف ہے۔ حکومتی ”زنان خانے“ میں بڑی بڑی مونچھوں والے مرد گھونگھٹ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے جتنی دفعہ بھی ”قبول“ کہا جائے یہ ہردفعہ ہاں میں سر ہلا دیتے ہیں۔ بس ”حق مہر“ کی رقم اور ”نان و نفقہ“ ٹھیک ہونا چاہئے۔ یہ بہت کم گو ہیں کچھ بھی ہوجائے بولتے نہیں کہ صاحبانِ اقتدار نے انہیں ”پابند“ کیا ہوا ہے ۔ حکومتی ایوان میں ایک ”مردان خانہ“ بھی ہے۔ تاہم یہ شنید ہے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے اس کے ”زنان خانے“ میں یوں تو ”زنانیاں“ بھی موجود ہیں لیکن یہ”زنانیاں“ خود کو زنان خانے تک محدود نہیں سمجھتیں جبکہ اپوزیشن کاایک ”زنان خانہ“ وہ ہے جو اگرچہ مردوں پر مشتمل ہے مگر شرعی پابندیوں کی وجہ سے سڑکوں پر نکلنے کو معیوب سمجھتا ہے اور اس میں سبھی جماعتوں کے ”زنانے“ شامل ہیں۔ سنا ہے حکومتی جماعتوں میں بھی ”مردان خانے“ موجود ہیں مگر یہ بات صرف شنید کی حد تک ہے اور تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوسکی!
تازہ ترین