میاں بیوی کا رشتہ پیار محبت اور اعتماد کی کسوٹی پر قائم رہتا ہے، جب اس میں شکوک و شبہات کی دیواریں کھڑی ہوجائیں تومذکورہ گھرانے میں ناچاقیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو فریقین کی اذدواجی زندگی کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔
اس قسم کا واقعہ نواب شاہ کے محلہ لیاقت آباد میں پیش آیا جہاں میاں اور بیوی کے درمیان آئے روز کے جھگڑے نے ایسی شکل اختیار کرلی کہ بیوی جوکہ امید سے تھی میکے جاکر بیٹھ گئی اور خاندان کے بڑوں کی کوشش سے سسرال واپس آکر بچے کو جنم دیا۔بچے کی پیدائش پر شوہر نے الزام لگایا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے اور تین سال تک باپ کی نفرت کے سائے میں پلنے والا بچہ اپنے ہی باپ کے ہاتھوں قتل ہوگیا ۔
پولیس ذرائع کے مطابق فیصل شیخ کی شادی اس کی ماموں زاد بہن سے ہوئی تھی شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور جھگڑے روز کا معمول بن گئے تھے ۔ اس دوران فیصل کے گھر میں بچی نے جنم لیا۔بچی کی ولادت کے باوجود بھی دونوں میاں بیوی میں ناچاقی ختم نہ ہوسکی گوکہ فیصل کی ایک بہن اس کی بیوی کے بھائی سے بیاہی گئی تھی اور فیصل کی بیوی کا بھائی اس کا بہنوئی بھی تھا لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیانی معاملات بہتر نہیں ہوسکے ۔ ایک روز فیصل اور اس کی بیوی کے درمیان بات اتنی بڑھ گئی کہ وہ گھر چھوڑ کراپنے والدین کے گھر چلی گئی ۔ فیصل کے والدین کے مطابق اس وقت وہ امید سے تھی ۔
نو ماہ بعد اس کے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام سیف اللہ رکھاگیا۔فیصل کے سسرالیوں نے بچے کی پیدائش کے بعداس امید پر فیصل کی بیوی کو اس کے شوہر کے گھر بھجوا دیاکہ شاید بیٹے کی ولادت کے بعد میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار ہوجائیں لیکن بدقسمی سے فیصل کے دل میں بدگمانی کا بیج جوکہ تناور درخت بن چکا تھا اس نے سیف اللہ کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے ۔
اس کے اس گھناؤنے الزام پر فیصل کے اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں نے اسے سمجھایا کہ اس کی بیوی پاکیزہ کردار کی مالک ہےاورسارا محلہ اس کی پارسائی کی گواہی دے گا لیکن فیصل نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور یہ جھگڑا بڑھتا گیا۔
چند روز قبل فیصل اپنے تین سالہ بیٹے سیف اللہ کو سیر و تفریح کرانے کے بہانے سرہاری لے گیا۔ پانچ روز تک دونوں باپ بیٹے لاپتہ رہے، جس کے بعد اس کے گھر والوں کو فکر لاحق ہوگئی اور مساجد سے اعلانات کرائے گئے اور گمشدگی کی پولیس میں بھی رپورٹ درج کرائی گئی ۔اس کے گھروالوں نے اخبارات میں ان کی گمشدگی کی خبر اوراشتہار کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی تصاویروائرل کردیں،تاہم دونوں کا پتہ نہیں چل سکا۔
اسی اثناء میں کھڈہر تھانے کی حدود سے کھیتوں کو سیراب کرنے والےایک ہاری کا اچانک واٹر کورس میں پانی بند ہوگیا، جس پر وہ یہ سمجھا کہ دوسرے زمیندار نے اس کا پانی بند کردیاجو کہ عام طور پر دیہات میں ہوتا ہے اور اس پر قتل و غارت گری کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ لیکن جوں ہی وہ ہاری واٹر کورس پر پہنچا تو دیکھا کی ایک بچہ کی لاش واٹر کورس کے فرنٹ میں پھنسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پانی بند ہوگیا تھا ۔
اس نے فوری طور پراطلاع اپنے زمیندار کو دی جس نے پولیس کو آگاہ کیا۔ اس دوران یہ تماشا بھی ہوا کہ لاوارث لاش لینے کے لئے کھڈہر اور تعلقہ تھانے کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا اور دونوں تھانوں کی پولیس حدود کے جھگڑے میں اٹکی رہی۔
بعدا زاں بعض پولیس افسران نے دونوں تھانے کے مابین تنازعے کا خاتمہ کیا۔ تعلقہ پولیس لاش کو اسپتال لے کر آئی جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد معلوم ہوا کہ بچے کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے اور اس کی شناخت سیف اللہ کے نام سے ہوئی۔ لاش ورثا کے حوالے کردی گئی جبکہ اسی اثناء فیصل بھی ایک ہوٹل پرچائے پیتے ہوئے نشاندہی کے بعد پکڑا گیا۔
اس نے دوران تفتیش، پولیس کے سامنے اقرار جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے سیف اللہ کوگلا گھونٹ کرقتل کرکے لاش واٹر کورس میںڈال دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے شک تھا کہ یہ میراناجائز بیٹا ہے۔ پولیس نےملزم کو عدالت میں پیش کیا جس نے اسے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔