• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں کچرے سے پیدا ہونے والے بحران نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ سندھ حکومت کو اس پر سخت اقدامات کرنا پڑے اور شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں غلاظت ڈالنے والوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔رواں سال ستمبر کےآخری عشرے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کوماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے اورشہر سے کچرے کے خاتمے کے لیے نوٹس لیتے ہوئے تمام ایس ایس پیز ، ڈپٹی کمشنرز اور دیگر اداروں کے حکام کے ساتھ ایک اجلاس میں ’’کلین کراچی مہم‘‘ کا اعلان کیا تھا جس کے تحت انہوں نے پولیس اور شہری حکام کر سخت احکامات دیئے تھے۔ ان احکامات پر عمل کرتے ہوئے صوبائی حکومت نےپورے کراچی کو ’’کچرا گھر‘‘ میں تبدیل کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے تحت گرفتاریوں کا عمل شروع ہوچکا ہے۔اس سلسلے میں پہلی گرفتاری سکھن تھانے کی حدود میں پیش آئی۔ 

جمعرات 26ستمبر کو سکھن تھانے کی حدود ، بھینس کالونی روڈ نمبر 50پربھینسوں کے باڑے میں کام کرنے والا عبدالجبار نامی شخص ٹرالی پر بھینسوں کا گوبر اور دروسری غلاظت، رکھ کر علاقے کی مرکزی سڑک پر پہنچا اور وہاں اسے پھینک کراپنے باڑے کی طرف واپس جارہا تھا کہ گشت پر مامور اہل کاروں نے زیر دفعہ 144 کے تحت اسے گرفتار کرلیا۔ملزم کے خلاف تھانے میں درج ہونے والی ایف آئی آرکے متن کے مطابق، اس کے خلاف دفعہ 188 کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ 

پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر حوالات منتقل کردیا ہے۔واضح رہے کہ سندھ حکومت نے شہر میں سڑک پر کچرا پھینکنے پر پابندی عائد کرکے دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے جبکہ کچراپھینکنے والے کی نشان دہی کرنے پرایک لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔صوبائی حکومت نے شہریوں سے بھی اپیل کی ہے کہ سڑکوں پر کچرا پھینکنے والے افراد کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دی جائے۔

ماضی میں کراچی شہر میں دہشت گردوں، تخریب کاروں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز ، ڈکیتوں اور اسٹریٹ کرائمز میں ملوث عناصر کی نشان دہی کرنے والے افراد کے لیے انعامات کا اعلان ہوتا رہا ہے، لیکن چند ماہ سےجگہ جگہ نظر آنے والے کوڑا کرکٹ کے پہاڑوں نے شہر کو ایک نئے قسم کے بحران کا شکار کردیا ہے۔ 

اب حالا ت اتنے گمبھیر ہوگئے ہیں کہ سندھ حکومت کو سڑکوں، گلیوں، نالوں اور سیوریج لائنوں میں کچرا ڈال کربلاک کرنے والے عناصر کی نشان دہی کرنے والے شہریوں کے لیے ایک لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کرنا پڑا۔صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ کی مشاورت سے ایک واٹس ایپ نمبر مخصوص کیا گیا ہے۔

شہریوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس نمبر پر ان شرپسندوں کی ویڈیو ز بناکربھیجیں جو سڑک کے بیچ میں کچرا پھینک رہے ہیں، سیوریج لائن میں بوریاں، رضائیاں، تکیے، اینٹیں،فٹ بال، مکانوں کا ملبہ ڈال کر اسے بلاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صوبائی حکومت کی ’’کلین کراچی مہم‘‘ کے آغاز سےایک ہفتے کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ٹیپو سلطان پولیس نے شارع فیصل پر کچرا پھینکنے والے ایک شخص کو رنگےہاتھوں پکڑ کر تھانے پہنچا دیا ۔

ٹیپو سلطان تھانے کی موبائل ، معمول کے مطابق گشت پر تھی، جب وہ شارع فیصل کے سروس پر پہنچی تو موبائل انچارج ، ہیڈ کانسٹیبل ذاکر علی نےفروٹ چاٹ کی دکان کے سامنے سڑک پر دکان میں کام کرنے والے ملازم محمد سہیل کومبینہ طور پر فروٹ کی خالی پیٹی اور کچرے سے بھرا ہوا پلاسٹک کا شاپر پھینکتے ہوئے دیکھا۔ 

اسے گرفتار کرکےتھانے منتقل کیا گیاجہاں اس کے خلاف دفعہ 188 کے تحت مقدمہ درج کر کے لاک اپ میں بند کردیا۔ ایک شخص مشرف ولد لطیف کو نارتھ ناظم آباد میں شارع نورجہاں پولیس نے گرفتار کیا۔ مذکورہ شخص شارع نورجہاں پر سیوریج نالے میں کچرے سے بھرا ہوا تھیلا پھینک رہا تھا کہ پولیس نے اسے موقع پر گرفتار کرلیا۔ 

کورنگی کے صنعتی علاقے میں کورنگی کازوے پر غیر قانونی گاریج ڈمپنگ پوائنٹس پر کوڑا کرکٹ پھینکتے ہوئے 5افراد کی گرفتاری عمل میں آئی، اس طرح سڑکوں اور نالوں میں کچرا پھینکنے کے الزام میں آٹھ افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔نوٹیفکیشن کےمطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں کھلے مقامات کچرا پھینکنے ،پبلک مقامات پر پان کی پیک تھوکنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

چلتی گاڑی سے سڑک پر کچرا پھینکنا بھی جرم میں شمار ہوگا اور اس کے مرتکب شخص کو پولیس گرفتار کرکے حوالات میں بند کرسکتی ہے۔نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144کے تحت یہ پابندی نوے روز کے لئے عائد کی گئی ہے۔

گزشتہ سال 14جنوری 2018 کو ریٹائرڈ جسٹس امیر ہانی مسلم نے سپریم کورٹ کے حکم پرجوڈیشل واٹر کمیشن کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کراچی سمیت سند بھرمیں آبی و ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے تھے۔انہوںنے سندھ حکومت کوعوامی مقامات پر کچرا پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے حکمت عملی بنانے کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں 27فروری 2018کو عوامی مقامات کو آلودہ کرنے والوں کےخلاف مقدمات درج کرنے اور گرفتاری کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

کمیشن نے عام شہریوں، میونسپل، سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کی جانب سے گھریلو، صنعتی، تعمیراتی اور اسپتالوں کا فضلہ رہائشی علاقوں میں پھینکنے اور جلانے کا سخت نوٹس لیا تھا ۔حکومت سندھ نے ان احکامات کی روشنی میں دفعہ 144 نافذ کر دی پبلک مقامات پر کچرا پھینکنے اور جلانے کےعمل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے مطابق قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا جس کی سزا ایک ماہ سے 6 ماہ قید اور دو سو روپے سے لے کر ہزار روپے تک جرمانہ ہے۔اس قانون کے نفاذ کے بعد28 فروری 2018 کو پولیس نے خواجہ اجمیر نگری اور نبی بخش تھانے کی حدود سے 4 افراد کو شاہراہوں پر کچرا پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا ۔ 

چند روزعمل درآمد کے بعد یہ قانون سرخ فیتے کی نذر ہوگیا اور کراچی کےہر علاقےمیں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے پہاڑ نظر آنے لگے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے شارع فیصل سمیت کراچی کی ہر شاہراہ ، پارکس، چورنگیاں، گرین بیلٹ، آئی لینڈز، اسٹیڈیمز کے اطراف سے بدبو کی وجہ سے گزرنا مشکل ہوجاتا تھا۔

کچرا اور ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ تیسری دنیا کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کراچی میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کے بعد ابوظبی میں بھی ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا اور 29اپریل 2018ء میں ڈرائیونگ کے دوران سڑک پر کچرا پھینکنے کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر فی ڈرائیور 1000 درہم کا جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ اس جرم کے مرتکب افراد کے لائسنس پر سیاہ نقطے بھی واضح کیے گئے۔

خبر رساں ادارےکے مطابق پولیس کی جانب سے ڈرائیونگ لائسنس یا پروفائل پر سیاہ نقطوں کا مطلب قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں شمار کیا جاتا ہے، اگر کسی ڈرائیور کو تین نقطے مل جائیں تو اُس پر ڈرائیونگ کی پابندی عائد کرتے ہوئے لائسنس ضبط کرلیا ۔

گزشتہ دو ہفتے سے’’کلین کراچی مہم ‘‘ جاری ہے، اور کراچی میں بھاری مشینریز کے ذریعے کچرا اٹھانے کا آغاز ہوچکا ہے۔خدا کرے کہ وزیر اعلی کی کلین کراچی مہم صرف نوے روز پر محیط نہ رہے بلکہ یہ ہمیشہ جاری رہےتا کہ کراچی شہر سے کچرے کا مسئلہ حل کرکےشہریوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کیا جاسکے۔

تازہ ترین