ایڈورڈ لوس
عبارت ’’نئی سرد جنگ‘‘ کی اختراع کبھی نہیں ہونی چاہئے تھی۔امریکا اور سویت یونین کے مابین اصل مؤقف میں کچھ بھی نہیں، اورڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے تجارتی شراکت داروں سے عالمی معیشت تیار کرنے کیلئےمطالبہ کرسکتا ہے۔ماسکو اور واشنگٹن الگ الگ مدار میں موجود تھے۔اور اب باقی دنیا سے کہا جارہا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے گہری جڑی ہوئی دومعیشتوں چین یا امریکا کے مابین کسی ایک کا انتخاب کریں۔اور نہ ہی تجارتی جنگ کا لیبل اس کی وسعت کا احاطہ کرتا ہے جو اس کے مفہوم کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
امریکا کے شراکت داروں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ چین کی معروف ٹیلی مواصلات کا سامان فراہم کرنے والی ہواوے کمپنی کو اپنے 5 جی نیٹ ورکس سے نکال دیں۔تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا ہر طرح کا الٹی میٹم صرف ہواوے تک محدود نہیں ہے۔اب تقریبا ہر چینی مصنوعہ ’’منچورین چپ‘‘ (بیک ڈور ٹیکنالوجی جو جب تک غیر فعال ہے معطل رہ سکتی ہے)چھپانے کے شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔
امریکا کے شراکت داروں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ چین کی معروف ٹیلی مواصلات کا سامان فراہم کرنے والی ہواوے کمپنی کو اپنے 5 جی نیٹ ورکس سے نکال دیں۔تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا ہر طرح کا الٹی میٹم صرف ہواوے تک محدود نہیں ہے۔
مثال کے طور پر اسرائیل کو حیفہ کی بندرگاہ کو گہرا کرنے والی چین کی تعمیراتی کمپنی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کہا جارہا ہے۔اسرائیل پر یہ دباؤ بھی ہے کہ ووہ تل ابیب میں میٹرو بنانے والے ایک اور چینی ٹھیکیدار سے تعلقات منقطع کرلے۔
سویا بین یا سؤر کے گوشت جیسی اشیاء کو چھوڑ کر، امریکا اور چین کے تنازع کے مستقبل میں انٹرنیٹ تقریبا ہر مصنوعات کوایک ممکنہ دہرے استعمال کی ٹیکنالوجی بنادیتا ہے۔وہ کہتے تھے کہ ہل کے پھالے کو تلواروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ریفریجریٹرز کے بارے میں کیا خیال ہے؟یا بچوں کے کھلونے؟ ایک بار جب آپ چینی چپ نصب شدہ کسی بھی چیز کو خارج کرنے کی راہ پر گامزن ہوجائیں،تو یہ جاننا مشکل ہے کہ کہاں جا کر رکیں گے۔قومی سلامتی کے حوالے سے جائز خدشات اور واضح طور پر وسوسوں کے مابین فرق خطرناک حد تک باریک ہے۔
اس فرق کو رواں ہفتے پیرس میں منعقدہ ایک کانفرنس میں گمراہ کن عنوان’’مصنوعی ذہانت پر بین الاقوامی تعاون‘‘ کے ساتھ ختم کردیا گیا۔درحقیقت واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے زیراہتمام اجتماع،مصنوعی ذہانت کے مستقبل کے بارے میں امریکا اور چین کے مابین مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرنے کی پہلی کوشش تھی،جس میں جنگ سمیت ہر چیز کے مستقبل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اہلکار،جس کانام اجتماع کے چٹھم ہاؤس اصول (اجلاس کے شرکاء کا اجلاس کی معلومات کو افشاء نہ کرنے کے قوانین) کے تحت نہیں لے سکتا،نے کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں واضح کردیا کہ امریکا چین کے مطلق العنان ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ مصنوعی ذہانت پر تعاون نہیں کرے گا ۔
اہلکار نے بتایا کہ دنیا بھر کی کمپنیوں کو مصنوعی ذہانت کے دو نظاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ایک امریکا کے زیرسربراہی بااعتماد اور لچک پر مبنی جبکہ دوسرا چین کا بدنیتی اور غیرلچکداری پر مبنی تھا۔مؤخر الذکر ہر براعظم کو غیر لچکدار یا آمرانہ سافٹ ویئر برآمد کررہا تھا۔
ایک چینی عہدیدار نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے عراق اور افغانستان میں بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا۔چینی عہدیدار نے کہا کہ انسانی حقوق کے معاملات میں کوئی بھی کامل نہیں ہے۔
بیانات کے تبادلے نے کانفرنس کو شروع ہونے سے پہلے ہی تقریبا ختم کردیا۔اس نے پریشان کن امکانات پیش کیے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے مابین کیا کچھ غلط ہوسکتا ہے۔فرانسیسی شریک میزبان،جن میں دو سابق وزرائے اعظم بھی شامل ہیں، مذاکرات کے لئے صرف بے بسی کاا ظہار کرسکتے ہیں۔
یہ ایک واضح سوال ہے کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ آنے والے ہفتوں میں چین کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ بندی پر راضی ہوجائیں گے۔2020 میں ان کے دوبارہ انتخابی امکانات کے بارے میں خدشات بتاتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرح سے عارضی جنگ بندی کی طرف جاسکتے ہیں۔
اس طرح کے معاہدے میں ہواوے کیلئے مختصر تعطل بھی شامل ہوسکتا ہے۔وہ ملک میں بڑھتی ہوئی جنگی دونظریاتی آوازوں کا کس طرح سودا کریں گے یہ ایک الگ معاملہ ہے۔کئی گنا سستا ہونے پرڈیموکریٹس یقینا تنقید کریں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے قلیل المدتی اقدامات غیر متوقع ہیں۔
تاہم ان کی چین کے حوالے سے وسیع حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اس کی انتہا پسندی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مشکل ہے۔گزشتہ چالیس سال سے امریکا نے چین کیلئے دونوں ممالک کیلئے قابل قبول نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔چین جیسے جیسےعالمی معیشت کا پابند ہوتا،اتنا ہی اس کا سیاسی نظام خودمختار بنتا جائے گا۔
تاہم حقیقت اس نظریہ سے متضاد ہے۔ چین نے جب 2001 میں عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے مقابلے میں آج وہاں زیادہ آزادی نہیں ہے۔اس کا سماجی کریڈٹ سسٹم، جو شہریوں کو ان کے طرزعمل کی بنیاد پر درجہ دیتا ہے،جوانگریز مصنف جارج آرویل کی تحریروں سے متعلق آرویلیائی وژن پیش کرتا ہے کہ کس طرح آمرانہ سافٹ ویئر کے ذریعے لوگوں کو کنٹرو ل کیا جاسکتا ہے۔اس کے باوجود اس کی معیشت اس دور کے مقابلے میں تین گنا زیادہ بڑی ہے۔
مسٹر ٹرمپ اس طرح اس حکمت عملی کا رخ اپنے ذہن میں تبدیل کررہے ہیں۔ہم سب کی جیت والے عالمگیریت کے امریکی وژن سے ہارجیت کے وژن کی جانب منتقل ہوچکے ہیں۔درحقیقت، ڈونلڈ ٹرمپ جس وژن کی پیروی کررہے ہیں وہ ہار ہی ہار کے قریب ہے، سب ہی ہار جائیں گے اگر عالمگیریت سے واپس پرانے دور کی جانب جانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت امریکا بالآخر جیتے گا کیونکہ یہ چین کے مقابلے میں زیادہ آہستہ ناکام ہوگا۔
رواں ہفتے پیرس میں مصنوعی ذہانت کا اجتماع مشین سیکھنے کے مضمرات کے متعلق ہونا چاہئے تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے سو سال بعد جو چیز اجاگر ہوئی وہ انسانی تعلیم کی فوری ضرورت تھی۔