کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ اس سنگین مسئلے کا سنگین ترین پہلوایٹمی جنگ کے خطرے اور تباہی سے متعلق ہے۔ ماہرین تو عرصہ دراز سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے سے خبردار کرتے رہے ہیں۔
مثلاً Ted.com پر برائن ٹون جنہوں نے پینتیس سال تک ایٹمی جنگ کے موضوع کا پیچھا کیا ہے، کی ٹاک موجود ہے جسے اب تک اٹھائیس لاکھ چونسٹھ ہزار افراد سن چکے ہیں۔
اس میں وہ پاکستان اور بھارت کی ممکنہ جنگ کی ہولناکی اور کرہ ارض اور تمام انسانیت پر اس کی تباہی کے اثرات کا احاطہ کر تے ہیں۔
وہ ناسا سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر لُوک اومان اور امریکی پروفیسر ایلن روبوک کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایٹمی جنگ کی تباہی صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایٹمی جنگ سے پھیلنے والی آگ سے اٹھنے والا بے پناہ دھواں پورےکرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے گا، سورج کی روشنی پوری طرح زمین پر نہیں پہنچ پائے گی،
عالمی سطح پر اناج کی پیداوار میں اتنی کمی آئے گی کہ پوری دنیا ایک بہت بڑے قحط کی لپیٹ میں آ جائے گی اور سردی اتنی زیادہ ہو جائے گی جتنی آئس ایج یعنی برف کے زمانے کے بعد کبھی نہیں ہوئی۔
حالیہ کشیدگی کے بعد چند روز پہلے ایلن روبوک نے دیگر ماہرین کے ساتھ ملکر ایک جریدے Science Advances میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے جس میں تقریباََ وہی منظر نامہ دوبارہ پیش کر کے دنیا کو ایٹمی خطرے سے خبردار کیا ہے۔
انکا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ سے فوری طور پر دس کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور اس سے کہیں زیادہ فوری طور پر زخمی ہوںگے (جن میں سے بہت بڑی تعداد چند ہفتوں کے اندر سسک سسک کر مرے گی)۔
کشمیر کے حالیہ تنازع کے بعد بات اب صرف ماہرین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ میں پوری دنیا کو اسی خطرے سے آگاہ کیا ہے، اس سے پہلے بھارتی وزیر دفاع اور پاکستانی افواج کے ترجمان بھی ایٹمی جنگ کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔
حال ہی میں بھارتی آرمی چیف نے دوبارہ ایٹم بم کے بارے میں رائے زنی کی ہے۔ مطلب ایٹمی جنگ اور خطرات کی بات اب دونوں ریاستوں کی اس سطح پر ہو رہی ہے جہاں فیصلہ سازی کا اختیار مرتکز ہے۔
زیادہ خطرناک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ دنیا نے کم از کم اب تک اس خطرے کا خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا ہے۔ مودی کی کشمیر میں بربریت جاری ہے، اس بربریت کے خلاف غیر ریاستی سطح پر کسی بڑے ردعمل کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، اس ممکنہ ردعمل کے پیشِ نظر بھارت مسلسل پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور اور ان دھمکیوں کے نتیجے میں پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب کا عندیہ دے رہاہے اور اس ساری خطرناک صورتحال میں دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس خطرناک صورتحال سے واپس آنے کیلئے دو سطحوں پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پہلی عالمی سطح ہے۔
اگرچہ دنیا بھر کا میڈیا اب کشمیر میں بھارتی بربریت پر سوال اٹھا رہا ہے لیکن اس بربریت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایٹمی ہولناکی کے خطرے پر اس طرح بات نہیں ہو رہی جیسے ہونا چاہئے،
نتیجتاً عالمی رائے عامہ میں اس حقیقی خطرے کا وہ خوف پیدا نہیں ہو پایا جو واپسی کیلئے ضروری ہے۔ لیکن سیاسی سطح پر جہاں عالمی فیصلہ سازی کے اختیارات مرتکز ہیں وہاں پر تو ابھی تک جوں تک نہیں رینگی،
جو بہت تشویشناک ہے۔ ایٹمی تباہی کے خطرے سے بچنے کے لئے عالمی سطح پر پاکستان اور بھارت پر دباؤ انتہائی ناگزیر ہے۔ دوسری سطح پاکستان اور بھارت کے اندرونی سیاسی اور رائے عامہ کے معاملات سے متعلق ہے۔ بھارت میں اندرونی سطح پر ایک فاشسٹ حکومت قائم ہے اور اس حکومت کے آنے اور اسکے اقدامات کی وجہ سے بھارتی معاشرہ بھی فاشزم کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے،
ایٹمی تباہی سے بچنے کیلئے بھارت کے اندر سے اس فاشزم کے خلاف موثر تحریک بہت ضروری ہے۔مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا ہمیں کھلے دل سے ماننا پڑے گا کہ پاکستان کے اندر سیاسی ماحول بھی کم فاشسٹ نہیں ہے، ساری حقیقی سیاسی قیادت جیل میں ہے، معیشت کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، جمہوری فیصلہ سازی تقریباً ناپید ہے۔ پاکستان کو معاشرتی اور سیاسی سطح پر واپسی کا راستہ اپنانا ہو گا۔