• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو دنیا میں بگاڑ کے اسباب لاتعداد ہیں مگر قرب شاہی کی شرانگیزیوں اور فتنہ پردازیوں کا کوئی جواب نہیں۔

انتہائی معقول شخصیات جو کسی مالی منفعت دنیاوی غرض کے جھانسے میں نہیں آتیں اور دولت و حسن کے مفسدات سے بچ جاتی ہیں، خود کو قرب شاہی کی زد میں آنے سے نہیں روک پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں علماء، شعرا، ادبا، مورخین اور دانشوروں کی غالب اکثریت شاہ کے مصاحبین کی صف میں شامل رہی ہے۔

خوشامد و چاپلوسی کو حرزجاں اور وردِ زباں بنانے والے مورخین، اہلِ دانش اور شعرا کا حاکمِ وقت کے دربار میں سجدہ ریز ہونا تو ہرگز اچنبھے کی بات نہیں مگر جب کوئی عالمِ دین درباری مولویوں کی صف میں شامل ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے مذہبی استحصال کی بنیاد پر حاکمِ وقت کے اقتدار کو دوام بخشنے کا باعث بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے علما کو شریکِ جرم سمجھا جاتا ہے اور تاریخ ایسے درباریوں کو ان کی دینی خدمات اور علمی کمالات کے بجائے درباری مولوی کے طو ر پر ہی یاد رکھتی ہے۔

مثال کے طور پر مغل بادشاہ اکبر کے دور میں شیخ مبارک کے بیٹوں ابوالفضل اور فیضی کے بہت چرچے تھے۔ شیخ مبارک بذات خود بھی عالم فاضل تھا مگر اس کے بیٹوں کی صلاحیتیوں کا تو ایک زمانہ معترف تھا۔

ابوالفضل نے ’’سواطع الالہام‘‘ کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ اس تفسیر کی انفرادیت اس کا بے نقط ہونا ہے یعنی اس تفسیر میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس میں کوئی نقطہ ہو۔ اس تفسیر کا نام بھی ایسا رکھا گیا کہ اس میں کوئی نقطہ نہیں آتا۔ جو شخص بغیر نقطہ کے الفاظ پر مشتمل پوری تفسیر لکھ سکتا ہے، اس کی علمی استعداد کیا رہی ہوگی۔

’’آئینِ اکبری‘‘ جسے مغلیہ ریاست کے آئین و قانون کا درجہ حاصل تھا، یہ بھی ابوالفضل کی تصنیف ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دونوں بھائیوں کا حافظہ بہت کمال کا تھا۔

ابو الفضل جو بات ایک بار سن لیتا، وہ اسے ازبر ہو جاتی جبکہ اس کا چھوٹا بھائی فیضی جو بات دو مرتبہ سن لیتا، وہ اسے حفظ ہو جاتی۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کوئی شاعر بادشاہ اکبر کے دربار میں آکر تازہ کلام پیش کرتا اور ابوالفضل کہتا، بادشاہ سلامت! یہ تو میرا کلام ہے اور پھر تمام اشعار سنا دیتا۔ اس کا بھائی فیضی جو اس کلام کو دو بار سن چکا ہوتا، وہ بھی ان اشعار کو دہراتے ہوئے گواہی دیتا کہ یہ کلام ابوالفضل کا ہی ہے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ ابوالفضل ایک سال کی عمر میں ہی روانی سے بولنے لگا تھا، پانچ سال کی عمر میں اسے پڑھنے اور لکھنے پر عبور حاصل ہوگیا اور سات سال کی عمر تک وہ علما سے بحث کرنے کے قابل ہوچکا تھا۔

اسی طرح اس کے بھائی ابوالفیض جو فیضی کے نام سے مشہور ہوا، کو بھی شاعری کے علاوہ، تاریخ، فلسفہ اور طب جیسے علوم پر دسترس حاصل تھی۔ اکبر کے درباری علما میں ہی ایک اور نام مُلا بدایونی کا تھا جو ابوالفضل اور ابوالفیض کے والد شیخ مبارک کا شاگرد تھا۔

ملا بدایونی نے بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک قابل ذکر کتاب ’’منتخبات تواریخ‘‘ ہے۔

اسی طرح مخدوم الملک ملا عبداللہ اور سلطان پوری شیخ عبدالنبی کو بھی درباری علما کی حیثیت حاصل تھی۔ عبدالنبی نے اکبر کو 9شادیاں کرنے کی اجازت دی اور پھر ایک موقع پر جب وہ اس بات سے مکر گیا تو بدایونی آگے بڑھا اور اس نے یہ کہہ کر اکبر کی مشکل دور کر دی کہ اگر مالکی مسلک کا ایک قاضی یہ فیصلہ کردے کہ چار سے زائد شادیاں قانونی ہیں تو یہ فیصلہ شافعی اور حنفی مسلک کے حاملین کے لئے بھی قابل قبول ہوگا چانچہ امام مالک کے مسلک سے تعلق رکھنے والے حسین عرب کو قاضی مقرر کیا گیا اور اس حوالے سے رائے دینے کو کہا گیا۔

انہوں نے فیصلہ صادر کردیا کہ تعداد ازدواج کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں اور جتنی بھی شادیاں کریں، وہ نہ صرف شرعی حوالے سے جائز ہوں گی بلکہ قانونی اعتبارسے بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔

ان درباری علما نے بادشاہ اکبر کو قبلہ حاجات اور کعبہ مرادات کا خطاب دیتے ہوئے سجدہ تعظیمی کو واجب قرار دیدیا۔ انہی درباری علما کی ترغیب و تحریص کے نتیجے میں بادشاہ اکبر کو ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے ایک نیا دین متعارف کروانے کا خیال آیا۔

درباری علما کے برعکس بعض علما ایسے بھی تھے جنہوں نے نتائج کی پروا کئے بغیر کلمہ حق کہا اور پھر اس کی سزا بھی بھگتی۔ ان میں سب سے نمایاں نام شیخ احمد سرہندیؒ کا ہے جنہیں ہم مجدد الف ثانی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف اکبر کے دور میں حق گوئی کا فریضہ سرانجام دیا بلکہ جہانگیر کے عہد میں بھی راست گوئی سے باز نہ آئے، یہی وجہ ہے کہ انہیں قلعہ گوالیار میں قید کردیا گیا۔

شیخ احمد سرہندیؒ اور شیخ ابوالفضل دو متضاد شخصیات ہی نہیں بلکہ تاریخ کے دو اہم کردار ہیں۔ اول الذکر نے قرب شاہی کی آرزو میں اپنی علمی وفکری اثاثے کو گرہن نہیں لگنے دیا جبکہ موخر الذکر نے قصیدہ گوئی کی میراث چھوڑی۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ احمد سرہندیؒ عالم دین کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جبکہ ابوالفضل کا شمار بادشاہ اکبرکے نورتنوں میں ہوتا ہے۔ جب بھی ابوالفضل یا فیضی کے نام آتے ہیں تو ’’نورتن‘‘ کی اصطلاح یاد آجاتی ہے اور باقی سب باتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔

چونکہ ’’سمذہب کارڈ‘‘ ہر دور میں موثر رہا ہے اس لئے ہر حکمران کو علما کی تائید و حمایت درکار رہتی ہے۔ قرب شاہی کی آرزو میں جب کوئی عالم حاکم وقت کی قصیدہ گوئی کرتا ہے تو اپنے مقام و مرتبے سے محروم ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ لوگ اسے درباری سمجھنے لگتے ہیں۔

یہ مرحلہ انتخاب ہر دور کے علما کو درپیش ہوتا ہے اور انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ کے مصاحبین کی صف میں شامل ہوکر اپنے علمی مقام و مرتبے کو گہنانا چاہتے ہیں یا پھر ایک آزاد منش اور حق گو عالم دین کا کردار اپنانا چاہتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین