• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
وریراعظم عمران خان کی یو این تقریر سے قبل ہی حکومتی ترجمانوں نے ایسا ماحول بنا دیا، جیسے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کے کسی فائنل ڈاکومنٹ پہ دستخط کرنے نیویارک جا رہے ہوں، ماسوائے ’’جیونیوز‘‘ کے اکثر نیوز چینلز کی نشریات آج بھی تواتر کے ساتھ اس مسئلہ پر غیر حقیقی رپورٹنگ کرتے ہوئے ملک میں ایک ’’ہیجانی کیفیت‘‘ پیدا کئے ہوئے ہیں، اب جبکہ تقریر کا DUST سیٹل ہوچکا ہے، تو قوم کیلئے زمینی تلخ حقائق کا سامنا کرنا ایک قومی پریشانی بن گئی ہے۔
وزیراعظم کی یو این تقریر ایک تاریخی واقعہ ہے نہ ہی حکومت میں بیٹھے اہم لوگ ایک تقریر کے نتیجہ میں مسئلہ کشمیر کو جلد حل ہوتا دیکھ رہے ہیں، اور نہ ہی اس سطح کی عوامی سفارتکاری سے فوری نتائج اگلنے کی توقع کی جاسکتی ہے، پچھلے دو ہفتوں میں کئی ملنے والوں نے پوچھا کہ اب کیا ہونے جا رہا ہے؟ کیا ہم ایک قابل قبول حل کے قریب پہنچ چکے ہیں؟ وغیرہ اسی غیر حقیقی صورتحال کی پشت پہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے کئی شہروں میں جلوس نکلے جس کی حتمی شکل چکوٹھی مارچ تھا، اچھی بات یہ ہوئی کہ ماضی کی طرح یہ مارچ پولیس فائرنگ سے بچ گیا، مارچ سے مسئلہ کشمیر کی پروفائل اوپر اٹھی ملک کو ایسی ہیجانی کیفیت سے گزارنا درست نہیں ہے، پچھلے چھ ماہ کی ہماری نہایت مصروف سفارتکاری، ایسا نہیں تھا کہ ملک خواب غفلت سے اچانک جاگ اٹھا اور وزیراعظم کی اہم تقریر ہوگئی، اہم ریاستی ادارے اس پروجیکٹ جس کا ایک ہی پہلو تاحال سامنے آیا ہے پہ کئی ماہ سے کام کر رہے ہیں، کشمیر اس ہمہ جہت سناریو کا اہم ترین مگر ایک پہلو ہے اور سردست اس سے ہی نمٹنا پاکستان کی ترجیح ہے، 50؍برس بعد سلامتی کونسل کا اس معاملہ کو دیکھنے کیلئے تیار ہوجانا اور اس کے بعد مختلف پارلیمان کے اندر سے کشمیر دوست آوازیں بلند ہونا اور دنیا بھر میں کشمیر پر موبلائیزیشن ایک ختم شدہ ایشو کو زندہ کرنے کے مترادف ہے، پاکستان اس مسئلہ کا فریق ہونے کے ساتھ کشمیریوں کا واحد پرزور وکیل بھی ہے، پاکستان کی متعدد سابقہ حکومتیں اس مسئلہ پہ پیش رفت نہ کرسکیں، جس کی وجہ سے مسئلہ کی پروفائل گر گئی، نہ ہی پاکستان کے سوا کوئی دوسرا ملک کشمیریوں کیلئے آواز بلند کرنے کو تیار ہے، ماسوائے ترکی، چین اور سعودیہ کے عمران خان کے بیانیہ کو منظر عام پر آئے ہوئے چند ہی دن ہوئے ہیں، مقبوضہ جموں وکشمیر میں کرفیو کا تیسرا مہینہ شروع ہوچکا ہے، حالات میں بہتری آنے میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں، ان حالات میں پاکستان اس لاگ جیم سے کس طرح کامیابی سے نمٹے، اداروں کیلئے بھی ایک چیلنج ہے اور قوم کیلئے بھی۔
وزیراعظم کی کشمیر، افغان، امریکہ مذاکرات کی بحالی سعودی، ایران تعلقات میں بہتری کی کوششیؒں اپنی جگہ ان کا کشمیر مشن کئی دارالخلافوں میں زیر بحث ہے، صدر ٹرمپ کے ساتھ پہلی ملاقات ہی میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت اور کشمیر میں جاری کرفیو اور سیاسی قیادت کو گھروں اور جیلوں میں بند کردینے کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ وہ اس مسئلہ کا ایک جلد منصفانہ حل چاہتے ہیں، دو ماہ میں امریکی صدر سے دو طویل ملاقاتیں پاکستان امریکا تعلقات کیلئے اچھی خبر ہیں دوسری طرف طالبان مذاکرات میں بھی امریکہ کو پاکستان کی بدرجہ اتم …مدد کی ضرورت ہے، طالبان کے ساتھ وزیر اعظم کی دیرینہ معاملہ فہمی ہے، طالبان کو بھی اپنی گفت و شنید کے حوالہ سے پاکستانی سفارتکاری اور ان معاملات میں اس کی اہلیت کی ہردم ضرورت ہے، طالبان، امریکا افہام و تفہیم میں خان صاحب کیلئے صدر ٹرمپ پہ کشمیر حل کے حوالہ سے مزید دبائو ڈالنے کے جواز پیدا ہوجائیں گے، ہمارے وزیراعظم اور صدر ٹرمپ اتفاق کرچکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ نہیں کریں گے، لوگ کہتے ہیں جب امریکا کو چھینک آتی ہے تو دنیا کو زکام ہوجاتا ہے، اگر افغان ایشو حل ہوجاتا ہے تو ٹرمپ کیلئے دوسرا ایجنڈا مسئلہ کشمیر کا حل ہوسکتا ہے، خان صاحب کا یہ کہنا کہ تحریکوں میں برے وقت آتے رہتے ہیں ملک کی بے چین عوام اور کشمیریوں کیلئے پیغام ہے کہ وہ حالات میں بہتری کیلئے ہردم کوشاں ہیں، لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی کوئی فوری قابل قبول حل نہیں نکال سکتے، بین الاقوامی سیاست کی اپنی ہی رفتار ہوتی ہے، دفتر خارجہ اور دیگر ادارے وزیراعظم کے مشن کی تکمیل کیلئے ہردم کوشاں ہیں، کیونکہ ہر کسی کو علم ہے کہ اس مسئلہ کا ایک مستقل حل تلاش کرنا برصغیر کے عوام کے مفاد میں ہے، یورپی میڈیا اور عوام کی بھاری تعداد تک کشمیریوں کی آوازیں پہنچ رہی ہیں ضرورت اس MOMENTUMکو قائم رکھنے کی ہے۔
72؍برس میں کچھ نہ ہوسکا جس کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پہ ہے، انصاف اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس وزیراعظم کو معاملات درست کرنے کیلئے وقت دیا جائے، بشمول کشمیر ایشو، عسکری اور سیاسی قیادتوں کی بھاگ دوڑ یقیناً بے مقصد نہیں؟ اہم حوالوں سے اتفاق رائے تیار ہونے میں وقت لگ جانا نئی بات نہیں، مقبوضہ کشمیر کی تکالیف میں گھری قیادت اگر حالات کی تنگی سے نمٹ سکتی ہے، تو ہم آزاد لوگوں کیلئے حکومتی مشن کو جاری رکھنے اور اس کی کوششوں کی ثمر آوری کیلئے وقت دینا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، اللہ پاکستان کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین