اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے راولپنڈی خودکش دھماکا کیس میں حملہ آور کی معاونت کرنے کے جرم میں20 مرتبہ سزائے موت پانے والے ملزم عمر عدیل خان کی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر فوجداری اپیل منظور کرتے ہوئے کمزور استغاثہ اور شواہد کی کمی کی بناء پر ملزم کو شک کا فائدہ دیکر بری کر دیا.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 20 قیمتی جانیں چلی گئیں لیکن سرکار نے اچھا کیس نہیں بنایا ہے‘ ہم نے اللہ کے سامنے جواب دینا ہے، انصاف کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے ، اگر قانون کے مطابق شہادت نہ ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
کسی بھی ملزم کاکسی کیس میں ملوث ہونا ثابت کرنے کے لیے کچھ تو شہادت ہونی چاہیے؟
اتنے ہائی پروفائل کیس میں اتنی کمزور شہادتیں لائی گئی ہیں ، جب کوئی ایسا سانحہ ہوتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے، مگر ہمیں بار بار ہماراحلف یاد آجاتا ہے، کہ ہم نے اللہ کے سامنے قانون کے مطابق فیصلہ کیا تھا کہ نہیں؟
استغاثہ ملزم کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق ثابت نہیں کرسکا ،چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز اسلام آباد رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے منسلک ہوکر سپریم کورٹ کی لاہور برانچ رجسٹری کے کیس کی سماعت کی .
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب امجدرفیق نے کہاکہ یہ ٹارگٹڈ خود کش دھماکہ تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ جب پولیس نے خود کش کو لانے والی کار کا سراغ لگا لیا تھا تو 11 ماہ تک رینٹ پر گاڑی لینے والے کا نام سامنے کیوں نہیں لایا تھا؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ اگرنام معلوم تھا تو گرفتار کیوں نہیں کیا ؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہاکہ 11 ماہ تک ملزم کی تلاش جاری رہی تھی ،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ جب ملزم کا نام 11 ماہ تک ریکارڈ پر آیا ہی نہیں تھا تو پھر آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اس کی تلاش جاری تھی ؟