• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل کا درد بھی عجیب شے ہے یہ پتھر جیسے لوگوں کو پگھلا کے آنکھوں سے بہا دینے پہ قادر ہے۔ دل کا درد بانسری کی آواز ہے۔ ہجرکا نغمہ ہے۔ یہ درد روح کی وحشت۔ یہ درد پیلے خشک پتوں کے کناروں پہ بھی گرتی اوس کے قطروں کے اندر چلتا رہتا ہے۔ 

یہ وہ ظالم درد ہے جو مہتاب میں ڈھل کر سمندر کا گریباں چیر دیتا ہے۔ یہ درد سنگ و آہن کی بارش کرتا ہے، لاشعور کے آئینہ خانہ میں۔ یہ درد آنکھوں میں کرچیوں کی طرح چبھتا ہے۔ یہ درد لہو میں سرسراتا ہے۔ 

بدن میں اداسی کا گیت گاتا ہے۔ اس درد کی دو شکلیں ہیں۔ ایک شکل وہ ہے جسے محبت کہتے ہیں اور دوسری صورت سچ مچ کا دل درد ہےجو اکثر اوقات دل کی رگوں میں خون کی گردش کرنے سے جنم لیتا ہے۔ اس وقت اپنا موضوع وہی درد ہے۔ پاکستان میں اس درد کا علاج خاصا مشکل ہے۔ 

ماضی قریب تک ایسا درد اُٹھنا گھاٹے کا سودا رہا ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر شیر افگن کو دل کے آپریشن کا مرحلہ درپیش ہوا تو انہیں آپریشن کے بعد کے مراحل کے نقصانات سے بچنے کے لئے انگلینڈ جانا پڑا۔ یورپی ممالک میں بھی یہ علاج خاصا مہنگا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ 

ہمارے ملک میں تو ہر ممکن شے بھی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے اسپتال ہیں لیکن علاج ’’اوکھا‘‘ ہے۔ غریب مریض کی نہ یہ دنیا ہے، نہ وہ دنیا۔ مضافات میں تو یہ درد بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ بڑے شہروں والے کبھی چھوٹے شہروں اور قصبوں کے مراکزِ صحت کا جائزہ لیں تو دل تھام کر رہ جائیں گے۔

میرے دماغ پر کئی دن تک وہ منظر ایک اذیت کی طرح چھایا رہا جس میں بائولے کتے کے کاٹے ہوئے مریض نےتڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ میرے اور وزیراعظم عمران خان کے شہر میانوالی کو ہمیشہ علاج معالجے کی سہولتوں کی محرومی کا سامنا رہا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ وہاں کی ایمرجنسی اور انتہائی نگہداشت کے یونٹوں کے باہر مریضوں کے لواحقین اور اندر مریضوں کو تڑپتے دیکھا۔

میانوالی کے اہم ترین قلمکار انوار حسین حقی دل تھامے اپنے علاقے کے ڈاکٹروں سے مایوس میرے پاس اسلام آباد پہنچے۔ انہیں ایک بزرگ کالم نگار نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کا غم کھانا چھوڑ دیں تو خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں نے کچھ دیسی نسخے بتائے اور اپنا دم کیا ہوا پانی پینے کا مشورہ دیا مگر مریض نے دم کیا ہوا پانی پینے سے انکار کر دیا کہ وہ صبح اُٹھنا چاہتا ہے۔ 

اگلے روز انہیں راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی راہ دکھائی۔ عسکری ادارہ امراضِ قلب کے بعد یہ پاکستان کا امراضِ قلب کا دوسرا بڑا ادارہ ہے۔ وہاں پہنچ کر مریضوں کا اژدھام دیکھ کر مریض اور ان کے لواحقین کا دل اپنی دھڑکن کی رفتار بڑھائے بغیر نہ رہ سکتا۔ میانوالی جو خطہ حیرت بھی ہے اور قریہ غیرت بھی ہے۔ 

وہاں کے لوگ ایک دوسرے سے تعصب کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ میانوالی کے لوگوں کی عمران خان سے محبت اس کا واضح ثبوت ہے۔ عمران خان کے لئے ایک عرض ہے کہ پنجاب نے اپنے تمام پروجیکٹ اس حلقے میں شروع کئے ہیں جہاں سے وہ ایم این اے ہیں۔ دوسرے حلقے کے لوگوں کا بھی عمران خان پر کچھ حق ہے۔

سرزمینِ میانوالی کی ایک تاثیر یہ بھی ہے کہ یہ خوددار اور پاک دامن بہنوں اور بیٹیوں اور ماؤں کا مسکن بھی ہے۔ جب انوار حسین حقی وہاں پہنچے تو میانوالی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ساریہ او پی ڈی میں موجود تھیں۔

 ڈاکٹر ساریہ میرے علاقے کے ایک شریف النفس ملک محمد پرویز کی صاحبزادی ہیں کچھ عرصہ قبل اپنے ہی علاقے میں تعینات تھیں لیکن میانوالی کے محکمہ صحت پر مسلط مافیا سے مایوس ہو کر یہاں آئی ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ادارہ امراضِ قلب راولپنڈی میں جہاں دل کے مریضوں کے لئے علاج کی جدید ترین سہولت میسر ہے، وہاں میرٹ پر بھی سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ یہاں کسی سے کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا ہم جو آپ لوگوں کی مدد کریں گے وہ کسی امتیاز کے بغیر ہو گی ہمیں اس کا احساس ہے کہ میانوالی جیسے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

میانوالی کی بیٹی نے ایک مسیحا کی حیثیت سے ہمارے مریض کو وہی اسٹیٹس دیا جو دوسرے مریضوں کو دے رہی تھی۔ اس ادارے کے سربراہ (ایگزیکٹو ڈائریکٹر) اظہر محمود کیانی (ہلالِ امتیاز ملٹری) ہیں۔ ان کی قیادت میں اس ادارے نے کامیابی کے کئی سنگِ میل عبور کئے ہیں۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سالوں کے دوران اس اسپتال میں گیارہ لاکھ آٹھ سو چھتیس مریضوں کا علاج کیا گیا۔ جبکہ ایمرجنسی میں دو لاکھ ستانوے ہزار ور نو سو ستتر مریضوں کو فوری امداد دے کر ان کی جان بچائی گئی۔ کچھ سال پہلے اس ادارے نے Angio Jetمشین کے ذریعے دل کے دورے کے مریضوں کا کامیاب علاج کرنے والے پاکستان کے پہلے اسپتال کا درجہ حاصل کیا۔

 بتایا جاتا ہے کہ اس مشین کے ذریعے سے دل کی بند شریانوں سے خون کے جمے ہوئے لوتھڑے نکال کر دورانِ خون بحال کیا جاتا ہے۔ اس مشین کو بازو یا پاؤں کی رگ میں خون جمنے کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں فالج کے علاج کا بھی مناسب بندوبست ہے۔

عمران خان کے حلقے میں بھی ایک اسپتال بن رہا ہے، ان کی نمل یونیورسٹی کے قریب، یہ اسپتال دراصل نمل میڈیکل کالج کے لئے بنایا جا رہا ہے جو نمل یونیورسٹی کا حصہ ہے۔ میری درخواست ہے کہ اس میں کچھ دل کے مریضوں کے علاج معالجہ کا بھی بندوبست کیا جائے۔ 

چونکہ میانوالی کے لوگ محبت کے معاملے بہت آگے ہیں اس لئے دل کا مرض تو انہیں لاحق ہونا ہی ہے۔ خود عمران خان بھی تو دل یعنی محبت کے مریض ہیں۔ بے شک اللہ نے اسی درد کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے بقول میر درد

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

تازہ ترین