دنیا میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کے پیش نظر حکومتوں کی جانب سے مختلف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جبکہ کئی مرتبہ ان بیماریوں کا سبب بننے والی اشیا پر ہی پابندی لگا دی جاتی ہے۔
ان میں ایک ایسی ہی بیماری ذیابیطس ہے جس سے دنیا بھر کے تقریباً 42 کروڑ سے زائد بالغ افراد نبردآزما ہیں۔
تاہم سنگاپور حکومت نے اپنے شہریوں میں اس بیماری کے خطرات کو کم کرنے اور بیماری کا سبب بننے والی اشیا کے تشہیر پر ہی پابندی عائد کردی۔
سنگاپور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں بہت زیادہ مقدار میں شوگر کی حامل فروخت ہونے والی اشیا کی تشہیر نہیں کی جائے گی۔
اس ملک کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب عالمی ادارہ صحت نے رواں برس ہی یہ انتباہ جاری کیا تھا کہ بچوں کے لیے غذاؤں میں بہت زیادہ مقدار میں شوگر پائی جاتی ہے۔
تاہم اس پابندی کے ساتھ سنگاپور ایسی اشیاء فروخت کرنے کے لیے ہونے والی تشہیر پر پابندی عائد کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔
سنگاپور کے وزیر مملکت برائے قانون ایڈون ٹونگ نے ہیلتھ اینڈ بائیومیڈیکل کانگریس 2019 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس پابندی کا اعلان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس پابندی کا اطلاق تمام میڈیا ذرائع پر ہوگا جن میں اخبارات، ٹیلی ویژن اور آن لائن شامل ہیں۔
وزیر صحت نے اعلان کرتے ہوئے اپنے اس اقدام کو ’ذیابیطس کے خلاف جنگ‘ سے تشبیہ دی جس کا آغاز سنگاپور نے 2016 میں شروع کیا تھا۔
علاوہ ازیں 2018 میں یہ تحقیق سامنے آئی تھی کہ سنگاپور کے لوگ یومیہ 12 چائے کے چمچے چینی کا استعمال کرتے ہیں۔
اس حوالے سے وزارت صحت کا کہنا تھا کہ وہ رنگوں کے کوڈ والے لیبل متعارف کروائیں گے تاکہ صارف اپنی مرضی اور احتیاط کے مطابق سافٹ ڈرنکس وغیرہ کا انتخاب کر سکے۔
ایڈون ٹونگ نے بتایا کہ زیادہ تر چینی سافٹ ڈرنکس کے ذریعے حاصل ہوتی ہے جو آسانی کے ساتھ مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں، تاہم یہی وہ مسئلہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔