• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ پینل :سلطان صدیقی، گلزار محمد خان(پشاور)

عکّاسی :… تنزیل الرحمٰن بیگ

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا کے مُشیر برائے قبائلی اضلاع اور صوبائی حکومت کے ترجمان، اجمل وزیر کا تعلق جنوبی وزیرستان کی تحصیل، شکئی کے احمد زئی قبیلے سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل اسکول، شکئی سے حاصل کی۔تاہم، 1990ء میں میٹرک کے امتحانات کے دوران ایک خوف ناک حادثے کا شکار ہونے کے نتیجے میں تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایک دوا ساز کمپنی کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی۔ 

پرویز مشرف کے دَورِ حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (قاف) کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھا اور صوبے و مرکز میں پارٹی کے مختلف عُہدوں پر خدمات انجام دیں۔ اُس وقت کے گورنر، لیفٹیننٹ جنرل سیّد افتخار حسین شاہ نے قبائلی علاقہ جات میں ایجینسی کائونسلز قائم کیں، تو جنوبی وزیرستان کائونسل کے رُکن منتخب ہوئے ۔ 

اس دوران پاک فوج اور طالبان کمانڈر، نیک محمد وزیر کے مابین ہونے والے معاہدے میں بھی شریک رہے۔ 2011ء میں حیات آباد، پشاور میں ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے کے موقعے پر اجمل وزیر کے عمران خان سے روابط استوار ہوئے۔ 

تاہم، انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات سےصرف 7روز قبل پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی، جس کی وجہ سے انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکا۔ البتہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعدان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے انہیںدُہری ذمّے داری سونپی گئی۔ گزشتہ دنوں ہماری اجمل وزیر سے خصوصی گفتگو ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

قبائلی اضلاع میں اصلاحات کسی چیلنج سے کم نہیں
نمایندگانِ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س :آپ نے جس ویژن اور مِشن کے پیشِ نظر پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی، کیا وہ اُس پر عمل پیرا ہے؟

ج :عمران خان نے جب وزارتِ عظمیٰ سنبھالی، تو تب ماضی کے حُکم رانوں کی کرپشن اور مَن مانیوں کے باعث مُلک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ایسے میںاُن کے پاس دو راستے تھے۔ پہلا آپشن یہ تھا کہ عوام کو فوری طور پر حقیقت سے آگاہ کیا جائے، لیکن اس صُورت میں عوام میں مایوسی پھیلنے، سرمایہ کاری رُکنے اور پاکستان پر دُنیا کے عدم اعتماد کا خدشہ تھا۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ ماضی کے حُکم رانوں کی طرح مصنوعی طریقے سے معیشت چلائی جائے اور اس کی جڑوں کو مزید کھوکھلا کیا جائے۔ 

تاہم، وزیرِ اعظم نے ان دونوں میں سے کوئی ایک راستہ بھی اختیار کرنے کی بہ جائے قومی معیشت کو فوری سنبھالا دینے کے لیے مالی تعاون کی غرض سے دوست ممالک کے دورے شروع کیے۔ نتیجتاً، سعودی عرب، متّحدہ عرب امارات اور چین سے ملنے والی مالی امداد کی بہ دولت ہماری معیشت ڈُوبنے سے بچ گئی۔ اسی عرصے میں عمران خان نے اقوامِ عالم سے پاکستان کے تعلقات بھی بحال کیے۔ یعنی پہلے سال میں حکومت کی تمام تر توجّہ معیشت کی بحالی اور مُلک کو تنہائی سے نکالنے پر مرکوز رہی۔

س :کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے پی ٹی آئی بھی مصنوعی انداز سے معیشت کا پہیہ رواں رکھتی؟

ج :اگر ہم سابقہ حُکم رانوں کے نقشِ قدم پر چلتے، تو مُلک پر مزید 24ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت نے معیشت کی بنیاد دُرست خطوط پر استوار کرنے پہ توجّہ دی۔ یاد رہے کہ بُحرانوں سے نجات کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرکز میں برسرِ اقتدار آئے پی ٹی آئی کو ابھی 14ماہ ہوئے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس عرصے میں ہم نے معاشی بُحران پر قابو پانے کے علاوہ معیشت کو دُرست سمت کی جانب گام زن کرنے کی کوشش کی ہے۔

س :لیکن آپ کی حکومت نے تو قرضوں کا حجم بڑھا دیا، حالاں کہ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان قرض لینے پر خود کُشی کو ترجیح دیتے تھے؟

ج :روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھنے سے قرضوں کا حجم بڑھا۔ ویسے عمران خان مُلک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے دوست ممالک سے امداد نہ لیتے، تو پھر کیا کرتے۔ ہمیں سابقہ حکومتوں کے قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور اُن کا سُود اُتارنے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑا۔

س :آپ نے کہا کہ حکومت نے پہلے سال کے دوران اقوامِ عالم سے تعلقات کی بحالی پر اپنی توجّہ مرکوز رکھی، جب کہ یو این جی اے سیشن میں صرف چین، تُرکی اور ملائیشیا نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی کُھل کر حمایت کی؟

ج :عمران خان اور وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کی کوششوں ہی کے نتیجے میں50برسوں میں پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کائونسل کا اجلاس طلب کیا گیا، حالاں کہ بھارت نے اس مسئلے سے دُنیا کی توجّہ ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لہٰذا، یہ پاکستان کی بہت بڑی کام یابی ہے۔ 

پھر وزیرِ اعظم نے اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی سے فی البدیہہ اور تاریخی خطاب کیا اور اپنے وزنی دلائل سے مسئلہ کشمیر پر عالمی ضمیر جھنجھوڑا۔ علاوہ ازیں، غیر ملکی دوروں میں شلوار قمیص اور پشاوری چپل پہن کر دُنیا بَھر میں پاکستانی بالخصوص خیبر پختون خوا کی ثقافت کو ایک برانڈ کے طور پر متعارف کروایا۔

س :سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان نے عمران خان کے لیے اپنا طیّارہ بھیجا، مگر سعودی عرب نے اقوامِ متّحدہ میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت نہیں کی۔ کیا اس سے پاکستان کو سبکی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟

ج : وزیرِ اعظم کے لیے سعودی طیّارے کی آمد پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ پھر عمران خان نے کسی پروٹوکول کے بغیر ہی غیر مُلکی سفر کیا، کیوں کہ ہمارا مُلک مزید عیّاشیوں کا متحمّل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی۔ 

اس وقت وہاں لاکھوں پاکستانی تارکینِ وطن مقیم ہیں، جب کہ حرمین شریفین کا تقدّس ، احترام اور تحفّظ ہمارے لیے ہر چیز پر مقدّم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی بعض معاشی مجبوریوں کے سبب سعودی عرب نے ہمارے مؤقف کی حمایت سے اجتناب کیا ہو، تاہم جلد یا بہ دیر مسئلہ کشمیر پر وہ بھی ہمارا ہم نوا ہو گا۔

س :مولانا فضل الرحمٰن نے 27اکتوبر کو حکومت کے خلاف ’’آزادی مارچ‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا حکومت نے اسے ناکام بنانے کے لیے کوئی حکمتِ عملی بنائی ہے؟

ج :مولانا فضل الرحمٰن سمیت کسی بھی فرد کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کا حق حاصل ہے۔ حکومت مارچ اور دھرنے سے قطعاً خوف زدہ نہیں۔ البتہ اسلام آباد میں دھرنے کے نتیجے میں حکومت کی مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اجاگر کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا، جب کہ بھارت کو فائدہ ہو گا۔ 

اگرجمعیت علمائے اسلام (فے) مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یک جہتی اور بھارتی جارحیت کے خلاف اقدامات کی خواہش مند ہے، تو اُسے اسلام آباد کی بہ جائے لائن آف کنٹرول پر دھرنا دینا چاہیے۔ البتہ انتشار کو روکنے کے لیےوفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب ایک میکینزم تیار کیا گیا ہے، جو پلان اے، بی، سی اور ڈی پر مشتمل ہے۔

س :بہ طور مُشیر اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟

ج :مَیں وزیرِ اعلیٰ کے مُشیر برائے قبائلی اضلاع اور صوبائی حکومت کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کا صوبہ خیبر پختون خوا میں انضمام گزشتہ حکومت کے آخری ایّام میں ہوا۔ نگراں حکومت میں ان علاقوں میں ایک عبوری قانون نافذ ہوا، جسے پشاور ہائی کورٹ نے معطّل کر دیا۔ مذکورہ قانون کے تحت ابتدائی 5برس میں انضمام کے لیے مرحلہ وار اقدامات کیے جانے تھے اور 10برس میں انضمام کا عمل پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ 

ہم نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ سُنایا کہ صوبے میں رائج تمام قوانین ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بھی نافذ العمل ہوں گے۔ اس موقعے پر سپریم کورٹ نے 6ماہ کا وقت دیتے ہوئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ہدایت کی۔ چناں چہ انضمام کے عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا صوبائی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس سلسلے میں ایک جامع لا ئحہ عمل تشکیل دیا گیا اور سب سے پہلے عدلیہ کی ان اضلاع تک توسیع کی گئی۔ 28ہزار لیویز اور خاصہ دار فورس کو، انضمام کے بعد جن کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہو گیا تھا، پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس مقصد کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا۔ 

لیویز اور خاصہ دار فورس کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے میری سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں الیونتھ کور کے ایک بریگیڈیئر اور دو ڈی آئی جیز سمیت محکمۂ داخلہ کے نمایندے شامل تھے۔ مذکورہ کمیٹی نے لیویز اور خاصہ دار فورس کے تحفّظات دُور کیے اور پھر ایک پریس کانفرنس میں وزیرِ اعلیٰ نے انہیں پولیس میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ اگلے مرحلے میں لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں باقاعدہ طور پر ضم کرنے کے لیے مزید قانون سازی کی جائے گی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد 28ہزار خاندانوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا تھا، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے نہایت خوش اسلوبی سے اس چیلنج پر بھی قابو پایا۔ 

اسی طرح قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ’’انصاف روزگار اسکیم‘‘ کے تحت ایک ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ اس اسکیم کے ذریعے 18سے 50برس تک کے افراد کو 50ہزار روپے سے لے کر 10لاکھ روپے تک کے بِلا سُود قرضوں کی آسان شرائط پر فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد بینک آف خیبر کی کسی بھی شاخ سے فارم حاصل کر کے قرضے کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ 

نیز، انصاف ہیلتھ کارڈ کے تحت قبائلی عوام کو بِلا تفریق علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ علاوہ بریں، قبائلی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور بحالی کے لیے مقامی باشندوں کی آراء کی روشنی میں ایک 10سالہ ترقّیاتی منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔

س :دس سالہ ترقّیاتی پروگرام کے لیے ایک سو ارب روپے سالانہ مختص کیے گئے ہیں۔ کیا یہ ساری رقم ایک سال میں خرچ ہو جائے گی؟

ج :یہ ساری رقم قبائلی اضلاع کی ترقّی پر خرچ ہو گی۔ اگر مختص کردہ فنڈ ایک برس میں صَرف نہ ہو سکا، تو اگلے برس اسے بروئے کار لیا جائے گا۔ 10سالہ ترقّیاتی منصوبے میں پاک، افغان سرحد کے قریب باجوڑ تا شمالی وزیرستان سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ 

یہ سڑک پاک، افغان تجارت کے لیے بھی استعمال ہو گی۔ قبائلی اضلاع کو مُلک کے دیگر علاقوں کے ہم پلّہ بنانے کے لیے وفاق نے این ایف سی ایوارڈ سے 3فی صددینے کا وعدہ کیا ہے اور ایک سو ارب روپے سالانہ گرانٹ بھی جاری کی ہے۔ خیبر پختون خوا نے این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصّے کے 11ارب روپے جاری کر دیے ہیں۔ پنجاب بھی رقم دینے پر آمادہ ہے، جب کہ سندھ اور بلوچستان بھی جلد متفق ہو جائیں گے۔ مزید برآں، قبائلی اضلاع میں شعبۂ تعلیم کے لیے 92ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 

ماضی میں یہاں فنڈز خرچ کرنے کے لیے فاٹا سیکریٹریٹ قائم تھا، لیکن چور بازاری کی وجہ سے اسے ختم کر دیا گیا۔ اب ہر قبائلی ضلعے کا ایک الگ اکائونٹ ہو گا، جس میں اُس کا فنڈ جمع کیا جائے گا۔ ایک ضلعے کا ترقّیاتی فنڈ دوسرے اضلاع میں استعمال نہیں ہو گا اور نہ ہی ایک منصوبے کے لیے مختص فنڈ دوسرے پراجیکٹ پر خرچ ہو گا۔ 

فنڈ کو بھرپور انداز سے استعمال کرنے کے لیے باقاعدہ میکینزم تیار کیا گیا ہے۔ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ قبائلی اضلاع میں شفّاف و پُر امن انتخابات درحقیقت عمران خان کے ویژن کی کام یابی ہے۔ 

ان انتخابات میں برسرِ اقتدار جماعت کے امیدواروں کے ساتھ اپوزیشن کے امیدواروں کی کام یابی اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخابی مرحلے میں سرکاری مشینری استعمال نہیں کی گئی اور اس وقت قبائلی عوام کے منتخب کردہ نمایندے ہی صوبائی اسمبلی میں اُن کی نمایندگی کر رہے ہیں۔

س :قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال سے مطمئن ہیں؟

ج :اگر مَیں یہ کہوں کہ قبائلی اضلاع میں مکمل طور پر امن قائم ہو گیا ہے، تو یہ مبالغہ آرائی ہو گی۔ البتہ ماضی کے مقابلے میں خاصی بہتری آئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے چند برس قبل ’’نوگو ایریا‘‘ سمجھے جانے والوں علاقوں میں مُلک کے مختلف حصّوں سے بہ ذریعہ سڑک بِلا خوف آمد و رفت ممکن ہوگئی ہے۔ 

گرچہ غیر ریاستی عناصر کی موجودگی کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن مجموعی طور پر شمالی و جنوبی وزیرستان کے حالات پہلے کی نسبت خاصے بہتر ہیں۔ قبائلی اضلاع میں کشیدگی کے خاتمے کا سہرا پاک فوج اور قبائلی عوام کے سَر جاتا ہے۔ ان کی لازوال قربانیوں کے سبب ہی وہاں امن قائم ہوا۔ 

آج قبائلی عوام کو اُن کے سارے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور تعلیم و صحت سمیت تمام شعبہ جات کی آزادانہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم، عمران خان نے طورخم میں نئے ٹرمینل کا افتتاح کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت اور آمد و رفت کے لیے یہ کراسنگ پوائنٹ 24گھنٹے کُھلا رہے گا۔ 

یہاں سے صبح سویرے متعدد افغان بچّے پاکستانی اسکولز میں پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور شام کو اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ مذکورہ کراسنگ پوائنٹ کے ہمہ وقت کُھلے رہنے سے پاک، افغان باہمی تجارت سمیت وسطی ایشیا کے ساتھ پاکستانی تجارت کو بھی فروغ ملے گا اور پاک، افغان تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ افغانستان سے آنے والے مریضوں اور زخمیوں کو ابتدائی طبّی امداد دینے کے لیے طورخم کے زیرو پوائنٹ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع، پی ٹی ڈی سی کی عمارت کو اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 

اگر افغان باشندوں کو مزید علاج معالجے کی ضرورت ہوئی، تو انہیں ویزا فراہم کر کے پشاور سمیت مُلک کے دیگر بڑے اسپتالوں میں منتقل کیا جائے گا، وگرنہ ابتدائی طبّی امداد فراہم کرنے کے بعد یہیں سے واپس بھیج دیا جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں غلام خان ٹرمینل کی تعمیر کے بعد جنوبی وزیرستان کے انگور اڈّا میں بھی ٹرمینلز بنائے جائیں گے، جب کہ خیبر پختون خوا کے دیگر اضلاع میں بھی پاک، افغان بارڈر پر کراسنگ پوائنٹس بنائے جائیں گے۔ اس اعتبار سے ایک سالہ کارکردگی کو شان دار کہنا، بے جا نہ ہو گا۔

س :ایک سو ارب روپے سالانہ کا مَصرف کیا ہو گا؟

ج :صوبائی حکومت نے قبائلی باشندوں کی مشاورت سے ہر قبائلی ضلعے میں ترقّیاتی منصوبوں کا تعیّن کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر علاقے کی ضروریات و ترجیحات کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ قبائلی اضلاع میں انفرا اسٹرکچر کی بحالی و تعمیر کے علاوہ وزیرِ اعظم نے باجوڑ اور شمالی وزیرستان میں میڈیکل کالجز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ان منصوبوں میں اسکولز ،کالجز کے قیام سمیت باجوڑ تا شمالی وزیرستان سڑک کی تعمیر بھی شامل ہے، جو ایک ٹریڈ ٹورسٹ روڈ ہو گا۔ سیّاحت کے فروغ کے لیے سیّاحتی مقامات کو بہترین شکل دی جائے گی اور ٹور ازم ٹاسک فورس نے اس پر کام شروع بھی کر دیا ہے۔ 

قبائلی عوام کے منتخب نمایندے تمام تر تعمیراتی سرگرمیوں کی نگرانی کریں گے، تاکہ کہیں بھی کسی قسم کا غیر معیاری کام نہ ہو۔ صوبائی حکومت پورے صوبے، بالخصوص قبائلی اضلاع میں جاری ترقّیاتی کاموں پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی اور فنڈز کے استعمال میں شفّافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔

س :قبائلی اضلاع میں خالی اسامیوں پر بھرتی کے لیے اہلیت میں رعایت دی گئی ہے۔ کیا یہ صوبے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی حق تلفی نہیں؟

ج :قبائلی باشندوں کا احساسِ محرومی دُور کرنے اور انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے خالی اسامیوں پر مقامی باشندوں ہی کو بھرتی کیا جائے گا اور اسی لیے تعلیم و عُمر میں رعایت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لہٰذا، اگر کسی منصب کے لیے، جس کی خاطر گریجویشن کی شرط رکھی گئی ہو، گریجویٹ امیدوار نہیں ملتا، تو پھر مقامی انٹرمیڈیٹ اور میٹرک پاس کو ترجیح دی جائے گی۔ 

تاہم، مُجھے یقین ہے کہ قبائلی اضلاع میں گریجویٹس کی کمی نہیں اور ہمیں موزوں امیدوار مل جائیں گے۔ ہماری حکومت قبائلی عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے، ماضی میں اُن کی مثال نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں وزیرِ اعظم بہ ذاتِ خود انتہائی سنجیدہ ہیں۔

س :کہا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض وزرا کے قلم دان تبدیل کیے جا رہے ہیں اور بعض سے وزارتیں لے کر نئے وزرا کابینہ میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟

ج :اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ چوں کہ وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کے سامنے وزرا کی کارکردگی سے متعلق باقاعدگی سے رپورٹس پیش کی جاتی ہیں، لہٰذا وہ سب کی کارکردگی سے آگاہ ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ، محمود خان کی سربراہی میں تمام وزرا محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں۔ 

البتہ اگر وہ اپنی ٹیم میں کوئی ردّ و بدل کرنا چاہیں، تو عمران خان کو اعتماد میں لینے کے بعد کر سکتے ہیں۔ اس وقت مَیں دُہری ذمّے داریاں انجام دے رہا ہوں، حالاں کہ پارٹی میں شمولیت کے وقت مَیں نے کوئی عُہدہ مانگا تھا اور نہ پارٹی ٹکٹ کا امیدوار تھا۔ چُوں کہ میری دِلی تمنّا ہے کہ قبائلی عوام کی محرومیاں دُور ہوں اور یہ علاقہ ترقّی کرے، چناں چہ مَیں نے فاٹا اصلاحات کے دوران ہر مرحلے پر مؤثر کردار ادا کیا۔ 

مَیں اکثر یہ سوچ کر کُڑھتا رہتا تھا کہ پارلیمنٹ میں قبائلی علاقوں کے 12ایم این ایز اور 8سینیٹرز موجود ہیں، مگر وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں، مَیں نے ایف سی آر جیسے کالے قانون کے خاتمے اور قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کی جدوجہد میں بھی حصّہ لیا۔

س :یہ تاثر بھی عام ہے کہ وزیرِ اعلیٰ با اختیار نہیں اور بیورو کریسی اُن کی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتی۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج :وزیرِ اعلیٰ مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ وہ پوری دیانت داری اور ذمّے داری سے کام کر رہے ہیں۔ نیز، اگر کوئی بیورو کریٹ اُن کے راستے میں رُکاوٹیں کھڑی کر تا ہے، تو پھر بیور و کریسی میں اُس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

تازہ ترین