• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت لاہور کی جانب محو سفر ہوں جہاں مجھے برطانوی شہزادے ولیم اور شہزادی کیٹ کے ساتھ تاریخی بادشاہی مسجد میں منعقدہ ایک مکالمے میں شرکت کیلئے خصوصی طورپر مدعو کیا گیا ہے،

تقریب کا مقصدشاہی جوڑے کو پاکستانی معاشرے کے تناظر میں مذہبی ہم آہنگی کی صورتحال سے روشناس کرانا ہے۔ میں دوران سفر ٹوئٹر پر مختلف سیاسی و سماجی شخصیات، ٹی وی اینکرز، صحافی سمیت دیگر انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے شاہی جوڑے کے دورہ پاکستان کے حوالے سے مختلف خیرمقدمی ٹویٹ پیغامات کا بھی بغور جائزہ لے رہا ہوں،

ٹوئٹر پر آج کے ٹاپ ٹرینڈزمیں برطانوی شاہی جوڑے کا دورہ پاکستان سرفہرست ہے ، شاہی جوڑے کو جس خوبصورت انداز میں سجائے گئے رنگارنگ رکشہ میں وفاقی دارالحکومت کی سیر کرائی گئی،

وہ رکشہ بھی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بناہوا ہے۔ ابھی برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو کا ٹویٹ میری نظر سے گزرا کہ برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی تعلقات کی کڑی ہے،

شاہی جوڑا پاکستان کے عوام کے ساتھ پائیدار تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ملک کے تما م قومی و علاقائی ٹی وی چینلز پر برطانوی شاہی خاندان کا حالیہ دورہ نہایت دلکش اندازمیں کور کیا جارہا ہے جبکہ شاہی خاندان کی پاکستان آمد کی خبر تمام اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنی ہے۔

ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کے پوتے ، شہزادہ چارلس اورآنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کے بڑے بیٹے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ مڈلٹن کے دورہ پاکستان کا جس پرجوش انداز میں خیرمقدم کیا جارہا ہے،

وہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین قریبی سفارتی ،عوامی اور اقتصادی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے،تقسیم ہند کے بعد شاہی خاندان ماضی میں بھی گاہے بگاہے پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں،

آج بھی بہت سے پاکستانیوں کو صدر ایوب کے زمانے میں ملکہ الزبتھ اور شہزادہ فلپ کا1961ء کا تاریخی دورہ پاکستان یاد ہے، یہ آزادی کے بعد برطانوی شاہی خاندان کا پہلا دورہ تھا، معزز مہمان کے استقبال کیلئے کراچی ایئرپورٹ پر صدر ایوب بذات خود موجود تھے،

سڑکوں کے دونوں جانب عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر ملکہ برطانیہ کیلئے خیرسگالی جذبات کا اظہار کررہا تھا، ملکہ برطانیہ نے بانی پاکستان قائداعظم کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ ملکہ الزبتھ نے اپنا دوسرا دورہ پاکستان 1997ء میں کیا تھا جب پوری قوم جشن آزادی کی گولڈن جوبلی یعنی آزادی کے پچاس سال منا رہی تھی،

اس وقت برطانوی ملکہ کے دورہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایک اہم پیغام دیا کہ برطانیہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے پاکستانیوںکی خوشیوں میں شریک ہے ،ملکہ نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے بھی خطاب بھی کیا تھا۔شہزادے ولیم کی والدہ آنجہانی لیڈی ڈیانا نے بھی تین بار پاکستان کا دورہ کیا،

پہلی بار وہ 1991ء میں پاکستان آئیں،وہ اپنے منفرد ، دھیمے انداز، خوش لباسی اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے بہت جلد پاکستانی عوام کے دلوں میں بسنے لگیں۔

دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی شہزادی ڈیانا کی پانچ سال بعد 1996ء میں پھر پاکستان آمد ہوئی جہاں انہوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب میں خصوصی شرکت کی، شہزادی ڈیانا نے اگلے سال 1997ء میں اپنی زندگی کا آخری دورہ پاکستان کیا اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئیں۔

دنیا بھر میں مقبول لیڈی ڈیانا کی حادثے میں وفات کی خبرسے پوری پاکستانی قوم بھی سکتے کی حالت میں آگئی تھی، یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کاشہزادی لیڈی ڈیانا سے عقیدت و احترام کا رشتہ تاحال قائم ہے۔اس کے بعد شہزادہ ولیم کے والد شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کامیلا پارکر نے 2006ء میں دورہ پاکستان کیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ برطانوی شاہی خاندان کا موجودہ دورہ تیرہ سال کے عرصے بعد ایک ایسے وقت کیا جارہا ہے جب پاکستان کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے، ایک طرف پاکستان عالمی سطح پرایف اے ٹی ایف کے تحفظات دور کرکے بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحانہ اقدامات علاقائی استحکام اور امن کیلئے شدید خطرہ ہیں،

میری نظر میں کشمیر کا دیرینہ حل طلب تنازع برطانیہ کی جانب سے تقسیمِ ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے جو رواں صدی میںسنگین انسانی المیے میں بدل گیا ہے۔ایسی صورتحال میں شاہی جوڑے کا حالیہ دورہ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں بہت موثر ثابت ہوگا ،پاکستان کا شماردنیا کے خوبصورت ترین مقامات پر مشتمل ممالک میں ہوتا ہے جسے خدا نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے،

مجھے یقین ہے کہ جب شاہی خاندان کی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، چترال ، شمالی علاقہ جات اور وہاں بسنے والے مہمان نواز باشندوں کی تصاویر منظرعام پر آئیں گی تو دنیا بھر کے سیاح لازمی طور پر پاکستان کا رخ کرنے کی خواہش کریں گے۔

برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے لاہور کے تاریخی قلعہ میں شاہی مہمانوں کا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے مکالمہ ایک قابل تعریف اقدام ہے، وہاں میری کوشش ہوتی ہےکہ میں غیرمسلم اقلیتوں کے حوالے سے عالمی برادری میں پائے جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کروں اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح صورتحال پیش کروں۔

میری معلومات کے مطابق معزز مہمان شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ فنونِ لطیفہ ، آرٹس کے بڑے قدردانوں میں سے ایک ہیں جو فلاحی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی رکھنے کی بناپر رفاہ عامہ کے مختلف پروجیکٹس کی سرپرستی کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔

میں معزز برطانوی شاہی مہمانوں کو پاکستان آمد پردل کی گہرائیوں سے خوش آمدیدکہتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ وہ لیڈی ڈیانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت کا سفر جاری رکھیں گے اور اپنی فلاحی سرگرمیوں کا دائرہ کار پاکستان میں بھی بڑھائیں گے۔

آج اکیسویں صدی میں جنگ کے شعلوں میں دہکتی دنیا کو شہزادے ولیم اور شہزادی کیٹ جیسی انسان دوست شخصیات کی اشد ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین