• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مطلب ایسا ناپسندیدہ سلوک یا رویہ ہے، جو کسی بھی فرد کو ناگوار، شرمندہ اور خوفزدہ کرسکتا ہے۔ اس میں زبانی طور پر ہراساں کرنا یا زیادتی کرنا ، زبانی یا تحریری طور پر ناشائستہ پیغام دینا، جس میں جنسی واقعات کی داستان، ای میل کرنا، میسج کرنا یا پرنٹ یا الیکٹرانک شکل میں واضح جنسی مواد دکھایا جانا (ایس ایم ایس ، ای میل ، سکرینسیور ، پوسٹر ، سی ڈیز) وغیر ہ شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ جنسی طور پر فائد ہ اٹھانے کے لیے غیر مناسب دعوت نامے یا باہر ملنےکی درخواست کرنا، جسمانی طرز عمل (جیسے چھونے، بوسہ لینا، تھپکنا، چٹکی لگانا، جسمانی دست درازی وغیرہ) اور جنسی برتاؤ والا رویہ (کسی شخص کے جسم کو گھورنا) ہراساں کرنے میں شامل ہے۔ 

اگر کوئی شخص یہ ناپسندیدہ عمل کرکے آپ کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا باعث بنے یا کوئی معاندانہ کام کرنے والا ماحول پیدا کرے یا ہراساں کرنے والا متاثرہ خاتون یا شکایت کنندہ کو اس کی درخواستوں پر عمل کرنے سے انکار کرنے پر سزا دینے کی کوشش کرے یا ملازمت کرنے والے کی ترقی کوجنسی استیصال سے مشروط کردے تو یہ بھی جنسی ہراسانی کی زمرے میں آتاہے، جو کہ قطعی قابل قبول نہیں ہے۔ 

تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر عموماً جنسی ہراسانی کا شکار ملازمت پیشہ خواتین ان واقعات کا ذکر نہیں کرتیں کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں لگتاہے کہ ان کے رشتے نہیں آئیں گے یا انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔

عالمی سطح پر ایک فعال ادارے کے 2018ء میں دس ممالک (بھارت، افغانستان، شام، صومالیہ، سعودی عرب، پاکستان، کانگو، یمن، نائجیریا اور امریکا) میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا کہ ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ مردوں کیلئے جنسی ضروریات کے مواقع کا کم ہونا اور عورتوں پرمردانہ تسلط کا احسا س ہے جبکہ سب سے اہم مسئلہ خواتین کا شکایت درج نہ کروانا ہے۔ 

ادارے کے مطابق خواتین کو دفاتر، تعلیمی اداروں، گلیوں، بازاروں، اسپتالوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراسانی کا سامنا ہے، ان ممالک میں بھارت سر فہرست ہے۔

پاکستان میں جنسی ہراسانی کے قوانین

پاکستان میں ایک قانون ’’کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ ، 2010‘‘ نافذ کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب قانون سازی کے ذریعے ملک میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی تعریف کی گئی ہے۔ اس قانون سے پہلے سرکاری، نجی یا کام کے مقامات پر ہراساں کرنے کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں تھی۔

حکومت پاکستان نے نہ صرف کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں ہونے سے بچنے کے لئے ایک خصوصی قانون نافذ کیا بلکہ اس کے تحت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 509میں بھی ترمیم کی گئی۔ اس میں ہراساں کرنے کی واضح وضاحت کی گئی ہے، جس میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ اس قانون کے تحت مجرم کو ایک سے تین سال تک کی سزا یا5لاکھ روپےتک جرمانہ یا دونوںسزائیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں۔

یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ جب بھی آپ کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے تو آپ ان اقدامات پر عمل کریں۔

پہلا مرحلہ:آپ کو ہراساں کرنے والے شخص پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ اس کی پیش قدمی کو پسند نہیں کرتی ہیں (اس کی پیشرفت ناپسندیدہ / غیر ضروری ہے)۔

دوسرا مرحلہ:اگر آپ باضابطہ شکایت نہیں کرنا چاہتیں تو اپنی تنظیم کے کسی قابل بھروسہ ساتھی کو آگاہ کریں۔

تیسرا مرحلہ:اگر آپ غیر رسمی طریقے سے شکایت درج کروانا چاہتی ہیں تو آپ یا آپ کا نامزد کردہ شخص غیر رسمی طور پر اس واقعہ کی اطلاع اپنے سپروائزر یا انکوائری کمیٹی کو دے۔

چوتھا مرحلہ:آپ اپنے سپروائزر، یونین، نامزد امیدوار یا کارکن نمائندے (یونین کی عدم موجودگی کی صورت میں) کے ذریعے اپنے سپروائزر یا انکوائری کمیٹی کو باضابطہ شکایت بھی جمع کرواسکتی ہیں۔

پانچواں مرحلہ:باقاعدہ شکایت درج کروانے کیلئے آپ کے پاس تین اختیارات ہیں:

٭یا تو واقعے کی اطلاع آپ تنظیم میں قائم انکوائری کمیٹی کو دیں (سیکشن 4)۔

٭اس ایکٹ کے سیکشن 8کے تحت مقرر، براہ راست وفاقی / صوبائی محتسب کو رپورٹ کریں۔

٭پولیس کو براہ راست اطلاع دیں (پی پی سی کے سیکشن 509 کے تحت)۔

چھٹا مرحلہ:اگر آپ انکوائری کمیٹی اور مجاز اتھارٹی (آپ کی تنظیم) کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں تو آپ محتسب یا ضلعی عدالت میں اپیل کرسکتی ہیں (ایسی صورت میں، محتسب مقرر نہ ہوں)۔

ساتواں مرحلہ:اگر آپ ابھی بھی محتسب / ضلعی عدالت کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں تو اپنی شکایت اس سے اعلیٰ عدالت میں جمع کرواسکتی ہیں۔

نوٹ:لازمی طور پر یہ یاد رکھناچاہئے کہ اپیل کا اختیار تمام فریقوں کے لئے دستیاب ہوتا ہے، یعنی ملزم اور متاثرہ دونوں فیصلوں کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین