• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توپوں کے دہانے مولانا فضل الرحمٰن کی طرف موڑ دیئے گئے ہیں اور ایسا گھمسان کا رن پڑ چکا ہے کہ پروپیگنڈے اور حقائق میں فرق کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ بات قیام پاکستان کی مخالفت اور مذہب کارڈ کے استعمال جیسے گھسے پٹے الزامات سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔

مثال کے طور پر شکست خوردہ حکومتی بزرجمہر کہتے پھرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی مثال تو اس آلو کی ہے جو ہر ہانڈی کا حصہ رہا ہے، پہلی بار باہر نکالے جانے پر اس قدر اشتعال کہ پوری ہانڈی اُلٹانے کے لئے برسر پیکار۔ کیا واقعی مولانا ہر دور میں شریکِ اقتدار رہے ہیں؟ کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن تو ہمیشہ شدت پسندوں کے فیورٹ رہے ہیں۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن تو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار رہے ہیں، یہ کیا تحریک چلائیں گے؟

ضیاء الحق کے مارشل لا کے چند برس بعد ہی مولانا مفتی محمود انتقال کر گئے تو مولانا فضل الرحمٰن کی دستار بندی کی گئی اور جمعیت علمائے اسلام کی زمام کار ان کے سپرد کر دی گئی۔ چند ماہ بعد ہی جے یو آئی دو حصوں میں بٹ گئی اور مولانا سمیع الحق نے الگ دھڑا بنا لیا۔

اس اختلاف کی وجوہات تو اور بھی تھیں مگر ایک بنیادی اختلاف یہ تھا کہ مولانا سمیع الحق ضیاء الحق کی حکومت میں شامل ہونا چاہتے تھے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن اس فیصلے کے مخالف تھے۔ یہ وہ دور تھا جب جماعت اسلامی اور جے یو آئی (س) سمیت بیشتر مذہبی جماعتیں ضیاء الحق کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو چکی تھیں۔

ان حالات میں ایک 27سالہ نوجوان اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے ڈکٹیٹر کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمٰن ایم آر ڈی کا حصہ بنے اور ضیاء الحق کے خلاف تحریک میں بہت فعال کردار ادا کیا، ایم آر ڈی کے دیگر رہنمائوں کی طرح انہیں بھی گرفتار کیا گیا اور وہ بہت طویل عرصہ پابند سلاسل رہے۔

ضیاء الحق کی موت کے بعد 1988ء میں انتخابات ہوئے تو مولانا فضل الرحمٰن پہلی بار قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ جب جنرل (ر) حمید گل نے بینظیر کا راستہ روکنے کے لیے آئی جے آئی بنائی تو جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی جماعتیں اس میں شامل ہو گئیں مگر مولانا فضل الرحمٰن نے اس اتحاد میں شامل ہونے سے معذرت کرلی۔

جب اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار غلام اسحاق خان نے صدارتی الیکشن لڑا تو مولانا فضل الرحمٰن نے ان کے مقابلے میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی حمایت کی۔ بینظیر بھٹو کیخلاف مذہب کارڈ کھیلا جا رہا تھا، عورت کی حکمرانی پر فتوے دیئے جا رہے تھے مگر مولانا فضل الرحمٰن بائیں بازو کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گئے اور محترمہ نے انہیں قومی اسمبلی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین بنا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی مقتدر قوتوں کے آلہ کار نہیں بنے، ہاں ایک موقع پر انہوں نے ضرور ساز باز کی اور یہ وہ موقع تھا جب 2002ء کے عام انتخابات سے پہلے امریکہ مخالف جذبات کے پیش نظر متحدہ مجلس عمل تشکیل پائی اور مولانا فضل الرحمٰن نہ صرف اس اتحاد کا حصہ بنے بلکہ انہوں نے ایک موقع پر جنرل پرویز مشرف کو بیل آئوٹ بھی کیا۔

ایم ایم اے نے وردی اتارنے کی یقین دہانی پر 17ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف کے اقدامات کو تحفظ تو مل گیا مگر بعد ازاں پرویز مشرف اپنے وعدے سے مکر گئے اور آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد قاضی حسین احمد ایم ایم اے کی صدارت سنبھال چکے تو انہوں نے پرویز مشرف کی وعدہ خلافی پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ مولانا نے پانسہ پلٹ کر کہا کہ ہم پرویز مشرف کے دوبارہ انتخاب پر نہیں حقوق نسواں بل کی منظوری پر استعفے دیں گے۔ پھر یہ طے ہوا کہ خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی جائے تاکہ پرویز مشرف دوبارہ باوری صدر منتخب نہ ہو سکیں مگر کمال مہارت سے یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھنے دی گئی جس پر ایم ایم کے صدر قاضی حسین احمد کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک انٹرویو کے دوران قاضی حسین احمد نے مجھے بتایا کہ مولانا نے اس معاملے پر مشرف سے ڈیل کر لی تھی۔ بہرحال ہمارے ہاں جو طرزِ سیاست رائج ہے اس میں ہر سیاستدان کبھی نہ کبھی مقتدر حلقوں کا آلہ کار ضرور رہا ہے اور اس بنا پر کسی کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔

کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ تو مولانا فضل الرحمٰن کی پہچان بن گیا اور یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ آخر کس میرٹ کی بنیاد پر انہیں بار بار کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جا تا رہا ہے۔

دراصل اس فیصلے کا ایک مخصوص پس منظر ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جہاد کی آڑ میں فساد پھیلانے کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کی۔ اگرچہ افغان اور پاکستانی طالبان کی اکثریت ان کے مدارس سے فارغ التحصیل طلبا پر مشتمل تھی مگر انہوں نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی کھل کر مخالفت کی۔

اسی بیانیے کے پیش نظر انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جاتا رہا کیونکہ وہ جہاد کی نجکاری کے حق میں نہیں تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے اس بیانیے کی بہت بھاری قیمت ادا کی، انہیں کئی بار نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ سچ یہ ہے کہ مذہبی جماعت کے رہنما ہونے کے باوجود مولانا بہت معتدل مزاج کے حامل ہیں۔

آج کل ہر محفل میں یہی سوال زیر بحث ہے کہ مولانا آ رہے ہیں، کیا وہ اسلام آباد پہنچ پائیں گے؟ اور اگر پہنچ گئے تو کیا ہوگا؟ میرا خیال ہے مولانا اسلام آباد پہنچ پاتے ہیں یا نہیں، یہ بات اب غیر متعلقہ ہو چکی ہے، محل کو بچانے کیلئے جس طرح مشعلیں لےکر دوڑیں لگائی جا رہی ہیں، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نے سماں باندھ دیا ہے اور آنے سے پہلے ہی چھا گئے ہیں۔

تازہ ترین