• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ہزاروں افراد کا عاصمہ جہانگیر کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم، 3 روزہ کانفرنس

لاہور(نیوز ڈیسک) عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے 3 روزہ کانفرنس اتوار کو ختم ہوگئی، کانفرنس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ عاصمہ جہانگیر کے مشن کو آگے بڑھائیں گے، انہوں نے آمرانہ قوتوں کے خلاف اور قانون کی حکمرانی، خواتین کی برابری اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بے باک جہدوجہد کی۔

ہزاروں افراد کا عاصمہ جہانگیر کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم، 3 روزہ کانفرنس


کانفرنس میں مجموعی طور پر 120 ملکی و غیرملکی دانشوروں، ماہرین قانون، سیاستدانوں، حقوق انسانی کے سرگرم کارکنوں اور صحافیوں نے 20 سیشنز پر مشتمل دورانیے میں خواتین، اقلیتوں اور بچوں کے حقوق کے لیے ٹھوس قانون سازی کے لیے تبادلہ خیال کیا۔

کانفرنس میں امریکا، برطانیہ، سری لنکا، بنگلہ دیش، آئر لینڈ، سوئیدن اور افغانستان سے سفارتکاروں، دانشوروں اور دیگر ماہرین نے شرکت کی۔

کانفرنس میں شریک حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے برطانوی وکیل کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین دیگر ممالک میں بھی رائج ہیں لیکن پاکستان میں اس کے غلط استعمال کی کوئی حد نہیں۔

ریاستی بحث اور قومی تعمیر کے عنوان سے اختتامی سیشن میں مقررین نے کہا کسی بھی نسلی گروہ کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جانا چاہئیے اور جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت کو فروغ دے کر جمہوریت کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا بے نظیر بھٹو کی مانند عاصمہ جہانگیر نے بہادری سے سچ بولا ان کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔

ہم نے نیب کو حکومتی آلہ کار نہیں بننے دیا تھا اور کسی کو سیاسی قیدی نہیں بنایا تھا پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنایا تھا لیکن موجودہ حکومت نے اسے خطرے میں ڈال دیا ہے،ہم نے پرامن احتجاج اور دھرنوں کا راستہ کبھی نہیں روکا تھا۔ کشمیر کی صورتحال پر حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔

ترجمان مسلم لیگ (ن ) مریم اورنگ زیب نے کہا جس بے خوفی سے عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کا بیڑہ اٹھایا اس کی مثال نہیں ملتی، اُنہوں نے اس وقت آواز بلند کی جب کوئی سامنے آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔

مریم اورنگ زیب نے کہا ماضی کےججوں نے آمریت کا تحفظ کیا اور جرنیلوں نے سیاسی حقوق چھین لیے اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہ ہوا، موجودہ دور بدترین سنسر شپ کادور ہے، کاروبار سیاست رُک گیا ہے، وقت آگیا ہے کہ محض قراردادوں اور باتوں پر اکتفا نہ کیا جائے، جمہوری حقوق کے حصول کے لیے قوم نہ صرف کھڑی ہو بلکہ عملی طور پر جابر حکمران کے سامنے تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم کا دفاع کرے۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی منزہ حسن نے کہا دنیا بھر میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والوں میں عاصمہ جہانگیر طاقتور اور موثر آواز تھیں، حکومت خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات اور قانون سازی کررہی ہے۔

میاں افتخار حسین سیکرٹری جنرل عوامی نیشنل پارٹی نے کہا عاصمہ جہانگیر جیسے افراد مرتے نہیں۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ صوبوں کو خودمختاری، داخلہ اور خارجہ پالیسی آزاد کرنا ہوگی۔

بالادست قوتوں کا اصل مسئلہ معاشی ہے اگر یہ نہ ہو تو انہیں 18 ویں ترمیم پر کوئی اعتراض نہیں۔ ماضی میں مرکز کو مضبوط بناتے ہوئے ملک ٹوٹ گیا تھا، خدارا صوبوں کو مضبوط بناؤ، سینیٹ کا الیکشن ہروایا گیا تھا، پورے پاکستان کا الیکشن چرایا گیا تھا۔

احتساب صرف نواز شریف یا آصف علی زرداری کا کیوں؟ پورے پاکستان میں صرف اتنے تھوڑے کرپٹ ہیں؟ پی ٹی آئی ڈرائی کلین ہے؟ تین دفعہ کے وزیراعظم کو پانامہ میں پکڑ کر اقامہ میں جیل بھیج دینا ڈرامہ اور مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں یعنی جو ان کی مرضی کے خلاف آواز اٹھائے گا اسےاندر کردیں گے۔

آج مولانا سے ڈر رہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ ان سمیت سب کچھ بہہ جائے گا۔ یہ مولانا پر مذہبی کارڈ کے استعمال کا الزام لگاتے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں انہوں نے کونسا کارڈ چھوڑا؟ عوام کو یورپ کی ہواؤں کے خواب دکھائے۔ میڈیا کی آزادی کا وعدہ کیا لیکن میڈیا کو اتنا غلام بنا دیا ہے کہ میڈیا وہی بولے جو یہ لکھ کر دیں۔

ریاست مدینہ کا حکمران کتنا اچھا، تابعدار اور سلیقہ مند ہے جمہوریت کو چرا کر حکمرانی کررہا ہے، ریاست مدینہ کے دعویداروں کو کشمیر کے مسئلہ کی حمایت میں ایک بھی مسلم ملک نہ ملا۔

صدر بلوچستان نیشنل پارٹی اختر مینگل نے کہا عاصمہ جہانگیر نے ہمیں انسان سمجھا اور ہمارے خیالات و مطالبات کو مردانہ وار آواز دی۔ 1973 سے لے کر آج تک تمام انتخابات چرائے گئے۔

وقت آگیا ہے کہ عدلیہ، میڈیا اور سیاست کو آزاد کیا جائے۔ خدا کا شکر ہےکہ پنجاب سے آواز آنا شروع ہوئی ہے، ماضی میں جب ہمیں مارا جاتا تھا تو کوئی نہیں سنتا تھا، اب جب خود پر پڑ رہی ہے تو نہ صرف ہماری سن رہے ہیں بلکہ بولنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔

سیکرٹری جنرل مسلم لیگ(ن) احسن اقبال نے کہا عسکری اور اسلحہ کی طاقت والا بیانیہ اس وقت زمین بوس ہوگیا تھا جب سویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اب جی سیون اور جی ٹونٹی میں صف بندی کی بنیاد معیشت ہے، آج عالمی سطح پر معاشی طاقت کے بیانیے کا بول بالا ہے جبکہ ہم 72 سال کے بعد بھی بزنس ماڈل کی تلاش میں ہیں۔ پارلیمان کو بالادست بنانا، عدلیہ کو آزاد اور قانون کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔ مذہبی، لسانی اور نسلی انتہا پسندی کے فروغ کے حامی نہیں ہیں۔

 پیپلز پارٹی کےرکن قومی اسمبلی چوہدری منظور نے کہا عاصمہ جہانگیر نے پسے ہوئے طبقے کو آواز دی، قومی سلامتی کے نام پر وہ طے کرتے ہیں کہ کس کا انٹرویو نشر ہوگا، کس کی زبان بندی ہوگی۔ الیکشن بوتھ، بیلٹ پیپر سے لے کر فتح تک سب ان کی مرضی سے ہوگا۔ شناخت کے مسئلے پر ہی پہلے ملک ٹوٹا تھا۔ طالع آزماؤں نے آئین میں دی گئی آزادی کو سلب کیا، کھلم کھلا کہا گیا کہ 18 ویں ترمیم منظور کرکے ملک دشمنی کی گئی۔

پیپلز پارٹی کا جرم یہ ہے کہ وہ جمہوریت کو آگے لےجانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہےجس کی وجہ سےہمیں کوڑے، شہادتیں اور پھانسیاں دی جاتی رہیں۔ 

علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ قانون کا اطلاق عدلیہ پر بھی ہونا چاہیے، اسے اپنے دائرہ کار کے اندر رہنا چاہیے۔ سابقہ چیف جسٹس کبھی میڈکل کالجوں کبھی ہسپتالوں میں گھس جاتے تھے، جن کو بولنا چاہیے تھا وہ خاموش ہوگئے، جنہوں نے ایکشن لینا تھا نہیں لیا، انہوں نے جرم کیا۔

وفاق کے خدشات ہیں کہ 18 ویں ترمیم سے صوبوں کو زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں جس کے وہ حقدار نہ تھے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی قانون کی بالادستی مکمل طور پر نہیں ہوسکی۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار علی احمد کرد نے کہا ایمان کی طاقت سے کہتا ہوں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک کو تباہ و برباد کردیا لیکن کوئی بھی نہ بولا صر ف میں نے اور عرفان قادر نے آواز اٹھائی۔ آج مال روڈ پر آئے تو ایک بھی شخص ہاتھ ملانے والا نہ ملے گا۔ 

بلوچستان والوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگنے والوں کو شرم نہیں آتی، ایک ایسے کپتان کو پورے بلوچستان کی سیکورٹی پر مامور کر دیا گیا ہے جس کی سوچ عام بلوچ کے برعکس ہے، لاتعداد لوگوں کی عملی جدوجہد کے بعد آج جمہوریت حاصل ہوئی ہے لیکن اس پر قدغنیں لگا دی گئی ہیں۔ وہ سالہا سال ملک پر قابض رہے ان سےجب بھی پوچھا گیا کہ کئی دہائیاں گزر گئیں قومی سلامتی کا مسئلہ کیوں حل نہ ہوا تو ان کا جواب سامنے نہ آیا کیونکہ وہ غلط تھے، لولی لنگڑی عدلیہ، لولے لنگڑے میڈیا کے ساتھ وہ ہمیں آگے نہیں پیچھے لے کر جارہے ہیں۔ 

لیفٹنینٹ جنرل(ر) طلعت محمود نے کہا قومی سلامتی کے چیلنجز بڑھے ہیں، ڈسپلن اور دوسری وجوہات کی بنا پر فوج ڈسپلن کے لحاظ سے دیگر اداروں پر غالب ہے اگرچہ نارمل جمہوریتوں میں ایسا نہیں ہوتا، سیا ستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لائیں، موجودہ حکومت کے اپوزیشن سےمذاکرات ضروری ہیں، حکومتی رویہ بدلنا چاہیے ورنہ جمہوری ادارے کمزور ہوں گے۔

سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا جب تک ہم تمام قومیتوں کو ان کے حقوق دیتے رہیں گے تب تک پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں، انصاف پر چلیں گے تو پاکستان مضبوط ہوگا، جو قومیں تاریخ کا قتل کرتی ہیں اس کا خمیازہ بھگتتی ہیں، اقلیتوں پر ظلم اور ان کی شناخت چھین کر مودی حکومت جس طرح نہرو کے ہندوستان کا حلیہ بگاڑ رہی ہے اگلے چالیس سالوں تک بھارتی اس کا خمیازہ بھگتیں گے۔

عارف نظامی نے کہا سویلین کنٹرول کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے جب تک میڈیا آزاد نہیں ہوتا، جمہوری ادارے خطرے میں ہیں، جمہوریت لے لیے مزید قربانیاں دینا پڑیں گی۔

سینیٹر قرۃ العین مری نے کہاعمران خان جھوٹ بول کر خطرناک بیانیہ سامنے لارہا ہے کہ 18 ویں ترمیم سے وفاق دیوالیہ ہورہا ہے، صوبائی خود مختاری کی بات کرنا نہ غداری اور نہ ہی ملک کو کمزور کرنا ہے، سندھ پر خاص لوگوں کی مہربانی سے آئی جی سندھ پولیس چیف منسٹر سندھ سے زیادہ طاقتور ہوگیا ہے، اسلام آباد ہم پر غداری کے فتوے جاری نہ کرے۔

رکن پنجاب بار کونسل اختر حسین نے کہا عوامی سلامتی نہ ہو تو قومی سلامتی کوئی معنی نہیں رکھتی، قاضی فائز عیسیٰ کی ایمانداری شک و شبہ سے بالاتر ہے، گولی سے نہیں بلکہ ووٹ کی طاقت سے تبدیلی آنی چاہیے اسی سے پائیدار اور حقیقی جمہوریت آتی ہے۔

سوشل میڈیا اور آزادی اظہار کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وسعت اللّہ خان نے کہا ریاست جہاں ہوگی وہاں خوف بھی ہوگا، اچھائی کی نیت ہو تو ریاست سے بڑا مدد گار نہیں، اعتزاز احسن اپنے فقرےریاست ہو تو ماں جیسی میں سوتیلی کا لفظ لگانا بھول گئے کیونکہ ہماری ریاست تو چھوٹے بھائی کی شرارت پر بڑے بھائی کو کہتی ہے کہ اس کی بھرپور چھترول کرے۔

ریاست اتنا سچ تو بول دے کہ کس چینل کو کیوں بند کیا گیا ہےاور کونسا شخص کیوں اٹھا لیا گیا ہے نہ بتا کر وہ تیسرے درجے کی بزدلی کا تو مظاہرہ نہ کرے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی بنیاد ہی نہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر ولید اقبال نے کہا نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی نہیں ہونی چاہیے تھی۔

منیزے جہانگیر نے کہا یہ ایک نادر موقع ہے جب تمام پارٹیاں ایک پیج پر ہیں، دن کا آغاز رائٹ لائیولی ہڈ ایوارڈ کے موقع پر عاصمہ جہانگیر کے خطاب کی ریکارڈنگ دکھا کر کیا گیا، جس میں انہوں نے عوام کی توقعات کا ذکر کیا۔ اس موقع پر منیایچر آرٹسٹ فاطمہ سلمان کی تصاویر کی نمائش بھی ہوئی، نیلم احمد بشیر نے اپنی نظم پڑھی۔

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، افغان سیاست دان فوزیہ کوفی، سری لنکا کے انسانی حقوق کے وکیل بھوانی فونسیکا، سویڈن کے سفیر انگرڈ جانسن، افغانستان کے سابق سفیر عمر ذخل وال نے کہا خواتین کے حقوق یقینی بنانے کے لیے جنوبی ایشیا میں امن ضروری ہے۔

ہالینڈ کے ہیومن رائٹس کے سفیر ڈاکٹر باہیا تہذیب، مصنف محمد حنیف، واشنگٹن پوسٹ کے کرسچئین کیرل، وسعت اللّہ خان، عائشہ سروری اور اقبال خٹک نے سوشل میڈیا کے کردار پر سیشن میں اظہار خیال کیا۔

کرسچئین کیرول نے بتایا کہ واشنگٹن پوسٹ نے خشوگی قتی کی تحقیق شروع کی تو اسے بعض ملکوں نے کس طرح نشانہ بنایا۔

وسعت اللّہ خان نے کہا سوشل میڈیا کچھ آزادی تو فراہم کرتا ہے لیکن لوگوں کو انتہائی غیر محفوظ بھی کر دیتا ہے۔

ٹرانس جینڈر ز کے حقوق پر سیشن علی دایان حس نے کندکٹ کیا، شرکأ نے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 پر مکمل عملدرآمد پر زور دیا۔

جلیلہ حیدر نے ہزارہ کمیونٹی کو لاحق خطرات، زمران سموئیل نے توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کا ذکر کیا۔

اقتصادیات اور سماجی ناہمواری کے بارے میں پینل میں ڈاکٹر حفیظ پاشا، شاہد کاردار اور قیصر بنگالی نے کہا ٹیکس نظام پر نظر ثانی ہونی چاہئیے۔

قمرزمان کائرہ نے کہا ہےکہ آمریت نے ہمیشہ کرپشن کارڈ سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا، ہم نے بطور قوم احتساب کو صرف مالی کرپشن سےجوڑ دیاہے، ہمارے رویے سیاسی اور جمہوری اس لیے نہیں بن سکے کہ اس ملک میں سیاستدانوں کو زیادہ موقع نہیں دیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے پاس ہونے پر تمام سیاسی جماعتوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا، اٹھارویں ترمیم حتمی نہیں اس پر مزید کام کیا جاسکتا ہے، لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سرکاری ملازم آئین کے تحت حلف اٹھا کر آئین کی اٹھارویں ترمیم کے خلاف بول رہے ہیں یہ حق صرف قانون سازوں اور مبصرین کا ہے، آج ملک کو سیاسی سے زیادہ ایک سماجی تحریک کی ضرورت ہے۔ 

ولید اقبال نے کہا کہ وزیرِ قانون کے پاس ایک ڈرافٹ تیار ہے جو نیب قوانین (بشمول ضمانت) میں ترامیم سے متعلق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب قانون اور 62(1)f تاحال موجود ہیں کیونکہ پی ایم ایل(ن) نے اِن قوانین کو بدلنے سے انکار کردیا تھا۔

مختلف اداروں اور عدلیہ کی مختلف زیادتیوں پر روشنی ڈالی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ چونکہ تمام سیاستدان ریاستی نرسری میں پیدا ہوئے تو ان کی ذہینت بھی اس بات کی عکاس ہے، سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کے حوالےسے فریدہ شاہد نے پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ اور ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹرنٹ اوسٹبائی کے سیشن کی صدارت کی۔

انسانی حقوق کی کارکن اور ایچ آر سی پی کی کونسل ممبر زوہرایوسف، پاکستان سول سوسائٹی نیشنل فورم کے کنرینئر محمد تحسین، قانونی ماہراسد جمال نے کہا کہ رجسٹرڈ سول سوسائٹی کی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دینی چاہیئے، سول سوسائٹی کی تنظیموں پر پابندی کی 2013 کی پالیسی کو چیلنج کرناچاہیئے۔

ماس کمیونیکیشن کو بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور سول سوسائٹی کے خلاف کردار کشی کی مہم ختم ہونی چاہیئے۔

عاصمہ جہانگیر روڈ میپ فار ہیومن رائٹس کانفرنس میں 120عالمی اور قومی سپیکرز نے شرکت کی اور اس کے 20 اجلاس ہوئے۔

سپیکر میں برطانیہ، امریکا، سری لنکا، بنگلہ دیش، آئرلینڈ، سویڈن اور افغانستان کے مندوبین شامل تھے۔

قانون کے طلبہ سمیت ہزاروں شرکاء نے کانفرنس میں شرکت کی اور عاصمہ جہانگیر کے مشن کو جاری رکھنے کاعزم کیا جنہوں نے آمرانہ قوتوں کےخلاف اور قانون کی حکمرانی، خواتین کی برابری اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بے باک جہدوجہد کی۔

تازہ ترین