• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
ایک مدت سے سال کا کوئی دن اور مہینہ ایسا نہیں ہے جب محکوم کشمیری عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہو مگر رواں ماہ اکتوبر میں بعض تاریخی واقعات یکے بعد دیگرے ایسے رونما ہوئے جسکے باعث اس مہینے کشمیری عوام کی آزادی اور سرگرمیوں میں ایک نیا جذبہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نوجوان نسل سے متعلق بعض کشمیری استفسار کرتے ہیں کہ برطانیہ کی بعض کونسلوں میں 24 اکتوبر کو آزاد کشمیر کی فلیگ ریزنگ کیوں ہوتی ہے، لوٹن میں اسی روز لوٹن کونسل کے باہر کشمیر وجل کا اہتمام ہے۔ آخر کیوں، پھر لندن میں 27 اکتوبر کشمیری یوم سیاہ کے پروگرام کیوں کرتے ہیں، جس میں ان کی حمایت میں پاکستانی باشندے اور خود بھارت کی بعض کمیونٹیز بھی شریک ہوتی ہیں ۔ان دنوں کا کیا کوئی تاریخی پس منظر بھی ہے یا یہ کہ مختلف پروگرام آرگنائزرز اپنی مرضی سے دن مقرر کر دیتے ہیں،تو گزارش ہے 24 اکتوبر 1947 کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں انقلابی حکومت قائم کی گئی تھی اور یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ نئی عارضی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی ترجمان ہے اور آزاد کشمیر کی عارضی حکومت پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے دوستی اور خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہوئے ان سے اس امید کا اظہار کرتی ہے کہ وہ کشمیری عوام کے پیدائشی حق آزادی کے ساتھ ہمدردی کریں گی۔جب کہ 25 اکتوبر کو یہ بھی واضح کیا گیا کشمیری عوام جن پر ڈوگرہ خاندان نے طویل مدت تک ظلم وجبر کے ذریعے حکمرانی کی، وہ آزادی چاہتے ہیں ۔ بعض مورخین کے نزدیک 24 اکتوبر کی حکومت دراصل 4اکتوبر کی حکومت کی تنظیم نو تھی 4 اکتوبر کے دن غلام نبی گلکار کی سربراہی میں پہلی عارضی آزاد کشمیر حکومت جمہوریہ آزاد جموں کشمیر حکومت کے نام سے بنائی گئی تھی ۔ اس دن کو یہ اعلان بھی کیا گیا کہ 4 اکتوبر کو رات ایک بجے کے بعد سے مہاراجہ ہری سنگھ یا اس کا کوئی جانشین ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ بعدازاں 4نومبر کو چوہدری حمیداللہ خان کے زیرصدارت میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت کے عہدہ کی توثیق کی گئی۔ اس کے بعد سے ہر سال 24 اکتوبر کی تاریخ کو آزاد کشمیر حکومت کے قیام کا دن منایا جاتا ہے ۔یہ الگ بحث ہے کہ آزاکشمیر حکومت کا بنیادی مقصد مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے بیس کیمپ کے کردار کا تھا مگر بدقسمتی سے اسے اقتدار کے کیمپ میں بدل دیا گیا ۔ 27 اکتوبر کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے معروف ادیب اور مورخ پنڈت پریم ناتھ بزاز (کشمیری غیر مسلم ) کی تحقیق سے اقتباس، بحوالہ سروش جموں کشمیر نمبر’’ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان جون 1947میں ماؤنٹ بیٹن تجویز کے مطابق مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا تھا ۔ اس تجویز میں کشمیر کا مستقبل بالکل واضح تھا ۔ اس کیلئے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سواکوئی اور چارہ نہ تھا لیکن فورا بعد کانگریسی رہنماؤں نے نتائج سے آنکھیں بند کرکے مہاراجہ کو مسلم اکثریت کی خواہش کے خلاف ہند یونین سے ناتہ جوڑنے کیلئے اکسانا شروع کیا‘‘۔یہ تاریخ دان اگست ، ستمبر اور اکتوبر کے واقعات واضح کرتا ہے کہ پونچھ کے نہتے عوام پر ڈوگرہ افواج نے گولیاں برسائیں اور کئی گاؤں جلا دئیے جس پر 23اکتوبر 1947کو قبائلی مجبور ہوکر اپنے کشمیری مسلمانوں کی مدد کیلئے کشمیر میں داخل ہوئے اور جو لوگ ان قبائلی افراد کو حملہ آور کہتے ہیں پنڈت پریم ناتھ بزاز کے نزدیک وہ تو کشمیری عوام کو مہاراجہ کے مظالم سے نجات دلانے آئے تھے جب کہ بعض مورخین کے نزدیک قبائلیوں کی یلغار یا کشمیر میں داخلے کا بہانہ بنا کر مہاراجہ نے ہندوستان کے گورنر جنرل سے مدد مانگی تھی جس پر 27 اکتوبر کو بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوئیں پھر پاکستانی افواج بھی ریاست میں داخل ہو گئیں جب کہ پنڈت پریم ناتھ بزاز کے بقول بھارت کا کشمیر پر قبضہ جمائے رکھنا آئینی اور جمہوری لحاظ سے صریحاً ناجائز ہے اور کشمیر پر چڑھائی کا یہ افسوس ناک واقعہ ہمیشہ تاریخ ہند کے دامن پر ایک بدنما دھبہ بن کر رہے گا۔ ماہ اکتوبر کے واقعات بہت طویل اور خونچکا ہیں ۔ سرسری سا تذکرہ کیا ہے ۔
اب برطانوی کشمیری کئی سال سے 27 اکتوبر کو لندن میں یوم سیاہ مناتے چلے آرہے ہیں لیکن چونکہ بھارت کی چیرہ دستیوں میں حالیہ عرصے میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ، کشمیر کی خصوصی حثیت تبدیل کر دی گئی ہے ۔ پورے مقبوضہ کشمیر کو کرفیو کے ذریعے محصور کر دیا گیا جس کے باعث حالیہ عرصہ میں تحریک میں شدت آگئی ہے اور لندن میں بھی کشمیری بڑے پیمانے پر سرگرمیاں ترتیب دے رہے ہیں جس پر اب بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے اس کی کوشش ہے کہ برطانیہ میں کشمیری اپنا جمہوری حق آزادی تحریر و تقریر بھی استعمال نہ کریں اور ایسے حربے استعمال ہو رہے ہیں کہ جن پر کمیونٹی ششدر ہے بس اپنے اپنے مفادات کا کھیل ہے ۔بھارت کی پوری کوشش ہے کہ برطانیہ جو ایک سپر پاور ہے اور جس کی بین الاقوامی دنیا میں اپنی ایک حیثیت ہے یہاں سے تحریک آزادئ کشمیر کو ملنے والی سپورٹ سے محروم کیا جائے اس کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ ہماری اس حوالے سےکشمیر پر پروگراموں کے منتظمین سے گزارش ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی مرکز میں ایسی اپروچ اپنائیں کہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا مقصد بھی پورا ہو اور کسی بھی طور یہاں پر کمیونٹی کوہیژن کو زک نہ پہنچے اور دنیا پر کشمیری ڈائیسفرا اپنے عمل سے ثابت کرے کہ ہم اس مادر وطن ریاست جموں و کشمیر کے باشندے ہیں جہاں پر صدیوں تک مذہبی آزادیاں مثالی رہی ہیں ۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت کے پیروکار سبھی اس ریاست کا حسن ہیں اور کشمیری ایک ایسی قوم ہے جسے مذہب اور نہ ہی علاقے کی بنیاد پر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان کی جدوجہد ریاست کی جغرافیائی وحدت کی بحالی کی ہے اور جب استصواب رائے کا حق تفویض ہوگا وہ تب اپنے مستقل سٹیٹس کا فیصلہ کریں گے جبکہ 24 اکتوبر ہو یا 27 اکتوبر یا کشمیر کا اور کوئی اہم دن خود کشمیری کمیونٹی اور ان کی جدوجہد میں ان کی ہر سطح پر ممدومعاون پاکستانی کمیونٹی میں اتحاد لازمی ہے یہی اتحاد اور یکجہتی ہی خارجی محاذ پر تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کا ضامن بن سکتا ہے ۔ بھارت کی مودی سرکار کی خواہش تو یہ دکھائی دیتی ہے کہ برطانیہ جو آزادی اظہار کا عالمی علمبردار ملک ہے جسے جمہوریت کی ماں سمجھا جاتا ہے اس کے کیپیٹل میں بھی آج کشمیریوں پر قدغن عائدکر دی جائےاور یہ احتجاج منسوخ کردیں اور دنیا جس کی اس وقت کشمیر پر نظریں لگی ہیں کو یہ لندن سے کشمیر کی موثر آواز نہ پہنچ پائے بھارت کے مظالم کی داستانیں معلوم نہ ہوسکیں۔تاہم بطور کشمیری پاکستانی ہم تو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کے پروگراموں میں کشمیریوں کی منصفانہ اور مسلمہ جدوجہد آزادی کی حمایت میں خود بھارتی انصاف پسند افراد بھی شریک ہوں اور وہ بھارت کی حکومت سے وہ کشمیریوں کے ہم آواز ہو کر مطالبہ کریں کہ مقبوضہ کشمیر سے اب بھارت اپنی قابض فورسز کو واپس بلالے اور وہ علامتی طور پر کشمیریوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کشمیر میں رائے شماری کو یقینی بنانے کے لیے آواز بلند کریں لندن کے بھارتی کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف کشمیریوں کے ترجمان بنیں اور بھارت کی قابض افواج کے انخلاء کا اپنی حکومت سے مطالبہ کرکے ایک نئی تاریخ مرتب کردیں ۔ لندن کے ایشیائی حقیقی سیکولر سوچوں کا عملی مظاہرہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے بھارت پر سب مل کر دباو ڈالیں۔ یہاں ہم بھارت کے باشندوں پر یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ 27 اکتوبر یوم سیاہ یہ اسی کشمیری قوم پر غلامی مسلط کرنے کے خلاف آواز ہے جو صدیوں تک مختلف تہذیبوں اور کمیونٹیز کا گہوارہ رہا اور یہ کہ آزادئ کشمیر کی تحریک نہ ہی تو پاکستان یا کسی اور اسلامی ملک کی سپانسرڈ ہے نہ ہی یہ مذہب کی بنیاد پر ہے ۔ البتہ بھارت کی فورسز جس طرح صرف چن چن کر مسلمان عوام کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ان کی نسل کشی کر رہی ہے بھارت کی پالیسیاں اسے مسلمانوں کی تحریک بنا رہی ہیں ۔ کمیونٹیز کی تقسیم تو مودی سرکار کر رہی ہے مگر صد افسوس کہ جو کشمیری لندن مودی سرکار کی کمیونٹیز تقسیم کی سازشوں کو اجاگر کرنے آرہے ہیں الٹا ان کی اس کاوش بعض لوگوں کو کمیونٹیز کو تقسیم کرنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے ۔کاش انصاف سے کام لیا جائے ۔
تازہ ترین