• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت بدستور نہ صرف مشکلات کا شکار ہے بلکہ اسے سنگین چیلنجز اور خطرات کا بھی سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے سال یعنی 2018-19 میں بیشتر اہم معاشی اہداف نہ صرف حاصل نہیں کئے جاسکے بلکہ بیشتر اہم معاشی اشاریوں میں مزید ابتری بھی آئی۔ اب سے 9؍ ماہ قبل ہم نے عرض کیا تھا کہ 2018-19 اور 2019-20 میں معیشت کی شرح نمو سے بھی کم رہے گی جو گزشتہ حکومت کے دور میں 2017-18 میں حاصل کی گئی تھی۔ (جنگ 11؍ جنوری 2019ء) اس کے 9؍ ماہ بعد عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کرتےہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے تین برسوں میں معیشت کی اوسط شرح نمو تین فیصد سے بھی کم رہے گی۔ عالمی اقتصادی فورم نے چند روز قبل جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ عالمی مسابقت 2019ء کی درجہ بندی میں پاکستان کی تین درجے تنزلی کردی گئی ہے۔

موجودہ حکومت کواونچا بجٹ اور جاری حسابات کا خسارہ ورثے میں ملا تھاان نے ان پر قابو پانے کے لئےاس نے اپنے منشور کے مطابق ٹیکسوں و توانائی کے شعبوں اور پیداوار بڑھانے کے لئے بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنے سے اجتناب کیا ہے کیونکہ ان اصلاحات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے چند ہفتے قبل اعتراف کیا کہ بجٹ و جاری حسابات کے خسارے کوکنٹرول کرنے کے لئے روپے کی قدر گرنے دی گئی، ٹیکسوں (بالواسطہ) کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا اور بجلی، گیس و پٹرولیم مصنوعات کے نرخوںمیں اضافہ کیا گیا چنانچہ افراط زر میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افر اط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے اسٹیٹ بینک کو پالیسی ریٹ میں متعدد بار اضافہ کرناپڑا اور یہ کہ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ حکومت نے معیشت کی شرح نمو قربان کرکے اور عوام پر غیر ضروری بوجھ ڈ ال کر معیشت کو عارضی ’’استحکام‘‘ دینے کی جو پالیسی اپنائی ہے اس کے معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کی ایک جھلک یہ ہے:(1)2017-18ء میں 5681؍ ملین ڈالر کی مجموعی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان آئی تھی جبکہ 2018-19ء میں صرف 250؍ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئی۔ (2)2008ء سے 2018ء کے 10؍ برسوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں میں اوسطاً 4.9ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا تھا جبکہ 2018-19ء میں 11.1ارب ڈالر تاریخی اضافہ ہوا۔ (3) 2017تا 18ء میں افراط زر کی شرح 3.9 فیصد تھی جبکہ 2018تا 19 میں یہ شرح 7.3 فیصد ہوگئی۔ 2019-20ء میں افراط زر کی شرح 11؍ فیصد رہنے کا خدشہ ہے۔ (4) 2017-18ء میں بجٹ خسارہ 6.5 فیصد تھا جبکہ منی بجٹ لانے کے باوجود 2018-19ء میں یہ خسارہ 8.9 فیصد ر ہا۔ بجٹ خسارہ ام الخبائث کہلاتا ہے۔ ملک کی حالیہ تاریخ میں اتنے اونچے خسارے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ (5) 2017-18ء میں داخلی بچتوں کی شرح 6.3فیصد تھی جبکہ 2018-19میں یہ کم ہو کر صرف 4.3 فیصد رہ گئی۔ (6) 2018-19ء میں ٹیکسوں کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد خدشہ ہے کہ 2019-20 میں بھی ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے تقریباً 500؍ ارب روپے کم رہ سکتی ہے۔ (7) 2017-18ء میں گزشتہ برس کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ ہوا تھا مگر روپے کی قدر میں کمی کرنے اور برآمد کنندگان کو مراعات دینے کے باوجود 2018-19ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں برآمدات میں کمی ہوئی۔مشیر خزانہ نے 12؍ اکتوبر کو کہا کہ تجارتی خسارے اور بجٹ خسارے پر قابو پالیا گیا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ (الف) یہ ’’کامیابی‘‘ ناپائیدار ہوگی کیونکہ یہ معیشت میں بنیادی نوعیت کی اسٹرکچرل اصلاحات کے بغیر حاصل کی گئی ہے۔ اس قسم کے دعوے گزشتہ 26؍ برسوں میں مختلف حکومتیں وقتاً فوقتاً کرتی رہی ہیں۔ (ب) بجٹ خسارے میں کمی تعلیم اور صحت کی مد میں انتہائی کم رقوم مختص کرکے حاصل کی گئی ہے۔ (ج) جن اقدامات کے نتیجےمیں یہ عارضی بہتری نظر آرہی ہے ان کے نتیجے میں معیشت کی شرح نمو سست رہے گی۔

اب سے پانچ برس قبل ہم نے لکھا تھا ’’موجودہ حکومت معیشت کو کمزور بنیادوں پر استوار کررہی ہے چنانچہ کچھ عارضی بہتری تو نظر آئے مگر 2018ء میں معیشت مشکلات کا شکار ہوگی‘‘ (24؍ اپریل 2014) یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور معیشت 2018ء میں بحران کاشکار ہوگئی۔ اب سے تین برس قبل ہم نے عرض کیا تھا ’’پاکستان قرضوں کو اپنے وسائل سے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا(جنگ 17؍ اکتوبر 2015ء) اس کے بعد ہم نے پھر لکھا تھا۔ خدشہ ہے کہ پاکستان 2018ء میں ایک مرتبہ پھر نجاتی پیکیج کے تحت آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول کے لئے درخواست پیش کرے گا۔یہ تمام خدشات حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں اورموجودہ حکومت نے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا ہے۔


اب سے 10؍ برس قبل ہم نے ان ہی کالموں میںلکھا تھا کہ معاشی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی ڈھانچا جاتی تبدیلیاں کرنا ہونگی ورنہ ایک کے بعد ایک بحران آتا رہے گا (جنگ 29؍ اپریل 2008ء) بدقسمتی سے یہ خدشہ بھی صحیح ثابت ہوا اور وطن عزیز میں سنگین معاشی بحران آئے۔ اب یہی خدشہ پھر نظر آرہا ہے کہ اگر ٹیکسوں و توانائی کے شعبے میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہیں کی گئیں اور پیداوار بڑھانے کے لئے اقدامات نہ کیے گئے تو 2023ء میں خدانخواستہ معیشت ایک مرتبہ پھر بحران کی زد میں آسکتی ہے۔

تازہ ترین