• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر دنیا میں تمام بڑی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کو تین بنیادی کیٹیگریز میں ڈالا جا سکتا ہے۔ پہلی کیٹیگری سیاسی ہے جس میں تحریکِ آزادی سے لے کر انفرادی اور قومی حقوق کی تحریکیں شامل ہیں۔ دوسری کیٹیگری انصاف کی تحریکوں کی ہے، جب کوئی بہت بڑا ظلم یا سانحہ ہوتا ہے تو لوگ انصاف کی تلاش میں نکل آتے ہیں۔ تیسری تحریکوں کی کیٹیگری معاشی بدحالی ہے۔ یہ دگرگوں معاشی حالات اور دباؤ کی وجہ سے شروع ہوتی ہیں۔ اور تاریخ یہ بتاتی ہے كہ سب سے موثر یہی تحریکیں ہوتی ہیں کیونکہ اگر معاشی بدحالی نہ ہو تو باقی تحریکیں بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

جب معاشی دباؤ بڑھتا ہے، لوگوں کا روزگار ختم ہوتا ہے، مڈل کلاس غربت کی لکیر سے نیچے جاتی ہے اور روزگار كے کوئی مواقع نظر نہیں آتے تو معاشرے میں چند چیزیں نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلے تو کرائم ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ جب لوگوں کو کچھ اور نظر نہیں آتا تو وہ چوری، ڈکیتی اور مختلف غیر قانونی چیزوں کی طرف راغب ہونے لگتے ہیں۔ جو بیچارے لوگ مشکل حالات میں بھی گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ بڑھتے ہوئے جرائم سے مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں حکمران طبقہ بھی آپ کی نہ سنے تو یہ بے بسی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے حالات میں محض ایک واقعہ، خواہ چھوٹا سا ہی کوئی واقعہ فلیش پوائنٹ بن کر انتشار میں بدل جاتا ہے اور کوئی بھی چیز چنگاری بن جاتی ہے۔

جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں ایک ہفتہ قبل میٹرو کے کرائے بڑھائے گئے۔ پہلے کرایہ 800 چلیین پیسو تھا اور اب یہ بڑھا کر 830 پیسو کر دیا گیا ہے۔ (پاکستانی روپوں میں یہ اضافہ تقریباً ساڑھے چھ روپے بنتا ہے) اس معمولی اضافے پر لوگوں نے کہا كہ اب اور برداشت نہیں ہوتا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے، بسیں جلا دی گئیں اور حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ فوج کو بلانا اور ایمرجنسی نافذ کرنا پڑ گئی۔ ایسا چلی میں 1990ء کے بعد سے کبھی نہیں ہوا تھا كہ فوج کو بلانا پڑے۔ اب ملک میں کرفیو نافذ ہے لیکن لوگ پھر بھی سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور مہنگائی اور معاشی بدحالی كے بارے کہہ رہے ہیں كہ بس! اب بہت ہو گیا۔

لبنان بھی ایسے ہی احتجاجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ جمعہ كے روز بیروت کے اندر سخت احتجاج اور انتشار نظر آیا۔ یہ پُرتشدد احتجاج تھا۔ لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری نے معیشت کو سنبھالنے كکے لیے پاکستان کی طرح ایڈجسٹمنٹ شروع کی اور کافی سارے نئے ٹیکسز لگائے گئے۔ ایک ٹیکس وَٹس ایپ سے کال پر بھی نافذ کیا گیا، جس کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت كو بالآخر یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ایسا صرف غریب ملکوں میں نہیں ہو رہا، چند ماہ قبل فرانس میں جب پیٹرول پر ٹیکس بڑھایا گیا تھا تو لوگ پیلی جرسیاں پہن کر باہر نکل آئے تھے اور پیرس سمیت فرانس بھر میں سخت ٹینشن اور کشیدگی رہی۔

پاکستان میں اِس وقت پرفیکٹ سٹروم والی کنڈیشن ہے۔ یعنی جب ہر چیز ایسی جگہ اور ایسی سَمت میں ہو كہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہو۔ ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے، ہماری مڈل کلاس سکڑتی جا رہی ہے، کرائم ریٹ بلند سے بلند تر ہو رہا ہے، نت نئے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں۔ حکمران طبقہ عوام كی نہیں سن رہا۔ بلندی سے چیزوں کا معائنہ کرنا اور گراف اور پریزنٹیشن میں چیزوں کو دیکھنے اور زمینی حقائق سے دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے، پھر ملک میں سیاسی استحکام بھی نہیں ہے۔ مولانا اسلام آباد پہنچتے ہیں یا نہیں لیکن تاجروں نے بھی اُنہی دنوں احتجاج کا پلان کیا ہوا ہے۔

گزشتہ روز اخبارات میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ آٹو پارٹس بنانے والی کمپنیوں نے پچھلے چند ماہ میں 40ہزار افراد کو نوکریوں سے فارغ کیا ہے۔ دیگر کاروباری حلقے بھی ایسی ہی خبریں سنا رہے ہیں۔ فواد چوہدری صاحب نے بھی کہہ دیا ہے كہ نوکریوں كے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔ (اگرچہ ان کا وضاحتی بیان بھی آیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کاروبار کے لیے سازگار ماحول اب تک نہیں بن سکا) پاکستان میں میٹرو کے کرائے بڑھائے گئے ہیں، موٹروے كے ٹول ٹیکسز آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ہر چیز پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے لیکن عوام کو ریلیف مل رہا ہے نہ ہی کوئی سہولت۔ سرکاری اسپتالوں میں بھی اب ٹیسٹوں وغیرہ کی فیسیں بڑھائی جا رہی ہیں، لوگ ڈینگی سے بھی مر رہے ہیں، دوسری جانب اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ہمارے حالات لبنان اور چلی سے بہتر نہیں، خراب ہی ہیں۔ آنے والے دن بہت مشکل ہیں اور اگر کوئی ایک چنگاری بھی بھڑک اٹھی تو معلوم نہیں کہ معاملات کہاں جا کر رکیں گے۔بس دعا ہے کہ اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کی خیر کرے۔ آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین