لاہور (نمائندہ جنگ /نیوز ایجنسیاں) لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال( بچوں کے سامنے ماں باپ کو قتل کیا گیا)کےتمام ملزمان کو شک کے فائدے پر بری کردیا،پولیس کا کوئی اہلکار مجرم ثابت نہ ہوسکا، مجموعی طور پر 49گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے۔ عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ زخمی گواہوں نے ملزمان کو شناخت نہیں کیا، فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ میں بھی ملزموں کی شناخت نہیں ہوئی ،جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیوں کے خول فرانزک کے لیے تاخیر سے بھیجے گئے۔
مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے ویڈیو بیان میں کہا کہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، فیصلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے،تسلی کر لی یہ واقعہ ایک حادثہ تھا،تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے جج ارشد حسین بھٹہ نے مقدمے کی سماعت کی اور فیصلہ سنایااس موقع پر سانحہ ساہیوال کے ملزمان میں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
اس سے قبل ملزمان کے وکلا نے سرکاری گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کی جبکہ عدالت نے مقتول ذیشان کے بھائی احتشام سمیت مجموعی طور پر 49 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے۔
خیال رہے کہ سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے کم عمر بچوں عمیر، منیبہ اور ان کے بھائی جلیل سمیت دیگر نے بھی اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے. عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مدعی مقدمہ عبدالجلیل نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کرنے سے انکار کیا تھا جبکہ سانحہ ساہیوال کے زخمی گواہوں نے بھی ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کی فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ میں بھی ملزموں کی شناخت نہیں ہوئی جبکہ جائے وقوع سے ملنے والی گولیوں کے خول بھی فرانزک کے لیے تاخیر سے بھیجے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس کو اسلحہ فراہم کرنے والے انچارج نے سانحہ ساہیوال کا سارا اسلحہ واپس کرنے کا بیان دیا۔دوسری جانب سانحہ ساہیوال کے عدالتی فیصلے کے بعد مقدمے کے مدعی اور مقتول خلیل کے بھائی جلیل کا ویڈیو پیغام سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔
پاکستان کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔جلیل نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ہم مطمئن ہیں۔تسلی کر لی ہے،یہ واقعہ ایک حادثہ تھا۔
ساہیوال واقعے میں کسی کی کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی۔قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے تاکہ فیملی کی دل آزاری نہ ہو۔یاد رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔
سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا‘فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔