وزیر صاحب کے چہرے پر تشویش اور تفکرات اور پریشانی کے اثرات واضح اور نمایاں تھے، وہ بڑے دکھ اور درد سے وطن عزیز پاکستان پر مسلط قرضوں کی کہانی دل گداز اور کربناک انداز میں سنا رہے تھے یہ میاں محمد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کی بات ہے جناب اسحق ڈار انگلستان میں پاکستانی نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے اور ہمیں بتا رہے رہے تھے کہ اگر ہم بیرون ملک پاکستان تعاون کریں تو ہم وطن کو قرضوں کی لعنت سے نجات دلاسکتے ہیں۔ انہوں نے حاضرین کو ایک خوبصورت نعرہ اس پیغام کو سمجھنے کیلئے سنایا ’قرض اتاروں ملک سنوارو‘ پیغام اتنا واضح دلنشیں اور قلب و روح میں اترنے والا تھا کہ تقریباً ہر کسی نے المیہ کیا کہ اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق وطن عزیز کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائے گا۔ بعد میں سننے اور پڑھنے میں آیا کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے جنہیں اوورسیز پاکستانیز کہا جاتا ہے یعنی سمندر پار کے پاکستانی کروڑوں ڈالر پاکستان بھجوا دےئے تاکہ قرض اتارا جاسکے اور ملک کو اس پر اور قرضے بڑھتے گئے۔ پھر جنرل پرویز مشرف کا کمانڈو ایکشن ہوگیا کچھ عرصے بعد مانچسٹر کے اسی ہال میں ہم پاکستان نمائندے پھر ایک وزیر با تدبیر کی خیال انگیز گفتگو سننے کیلئے جمع تھے۔ اس بار وزیر صاحب سویلین نہیں بلکہ آپ ایک جنرل تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر انہوں نے اپنے اہل زبان ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا اور خوبصورت اردو میں سامعین کے دلوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا۔ وہ درد ناک اور پُراثر لہجے اور انداز میں بتا رہے تھے کہ سابقہ حکومت نے کس طرح ملک کے خزانے کو پامال اور ملک کو کنگال کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کو ملک خدانخواستہ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے”ڈیفالٹ“ کر جائے آپ بیرون ملک پاکستانی آگے بڑھیں اور ملک کو سہارا دیں۔ اپنے عطیات بھجوائیں سرمایہ کاری کریں یہ آپ کا اپنا وطن ہے۔ اس وطن کا آپ پر حق ہے آپ اپنا فرض ادا کریں ہمیں بتایا گیا کہ ہم بہترین پاکستانی ہیں۔ جو وطن سے کچھ مانگتے نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کرتے ہیں ہم کچھ طلب نہیں کرتے بلکہ دست تعاون بڑھاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنے آباؤ اجداد کے وطن کا سہارا بنتے ہیں۔ جنرل صاحب کی باتوں سے محفل میں موجود ایک شخص غصے میں آگیا اور کہنے لگا جنرل صاحب چند سال پہلے اسی جگہ پر ایک سیاسی حکومت کے وزیر صاحب بھی یہی باتیں کر رہے تھے اور ہمیں قرض اتارنے اور ملک سنوارنے کی ترغیب دلا رہے تھے ان رقوم کا کیا ہوا اب ہم آپ پر اعتبار اور اعتماد کیسے کریں۔ کیا پتہ کہ آپ بھی ہمارے عطیات او سرمایہ کاری کا وہی حشر کریں جو پہلے ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ جنرل صاحب کچھ کہتے دوسرے پاکستانی ساتھیوں نے اس جذباتی پاکستانی کو مشورہ دیا کہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں جنرل صاحب شاید خلوص دل سے کچھ کرنا چاہتے ہوں اس لئے ہمیں ان کا نہیں بلکہ ملک کا ساتھ تو دینا چاہئے۔ جنرل صاحب وہاں سے گئے تو کچھ عرصہ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے دوسرے درجے کے شہری یعنی ”نیکوپ“ نیشنل آئیڈینٹٹی کارڈ فار اوورسیز پاکستانیز کا تحفہ آگیا اور ہم سے پاکستانی پاسپورٹ چھینے کے عمل کا آغاز ہوگیا۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی طرف سے دائر کی جانے والی آئینی پٹیشن میں ہمیں یعنی بیرون ملک پاکستانیوں کو ہمارا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے یہ آئینی پٹیشن خارج نہیں ہوئی بلکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ طاہر القادری کے ذریعے سے بیرون ملک پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ آپ اوورسیز پاکستانی ہو اپنے آپ کو سمندر اوورسیز تک ہی رہنے دو۔ آپ لوگ ملک میں آسکتے ہیں آپ کی وجہ سے پی آئی اے کا کاروبار چلے گا اور اس سے ہزاروں پاکستانی خاندانوں میں خوشحالی آئے گی سیاسی لوگوں کو پی آئی اے میں اپنی من پسند پوسٹیں لوگوں کو تقسیم کرنے کا موقع ملے گا چاہئے اس سے قومی ائر لائن کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جائے آپ بیرون ملک سے ہر سال سولہ بلین ڈالر زرمبادلہ بھیجیں تاکہ محب وطن اور پاکستان ہر حکومت کرنے والی قومی سیاسی اور فوجی حکومتیں اپنی مرضی سے اس کو خرچ کرسکیں محب وطن قومی لیڈر آپ کے بھیجے ہوئے سرمائے کو بڑی حفاظت محنت اور جانفشانی سے واپس بیرون ملک اپنے بنکوں میں ٹرانسفر کرسکیں ان کی حب الوطنی اور وطن دوستی پر کوئی شک نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ پاکستان کے ہر بڑے شہر اور خوبصورت تفریحی مقامات پر اپنے قلعہ نما محلات تعمیر کرچکے ہیں جہاں سینکڑوں پہرے دار آپ کی بھیجی ہوئی رقم سے ان کی حفاظت پر مامور رہے ہیں ان کی جائیدادیں باہر ہیں تو کیا ہوا انہوں نے سرے محل یا ہائیڈ پارک کارنر کی قربت کے قیمتی فلیٹس خرید رکھے ہیں تو کیا ہوا ان کے بچے باہر کے ممالک میں تعلیم حاصل کریں وہاں کاروبار کریں ہمیں اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں یہی غنیمت کیا کم ہے کہ وہ پاکستان بدقمست اور کرپشن میں ملوث ملک کی حکمرانی قبول کرکے تم پر احسان کر رہے ہیں اگر وہ گرمیوں کی چھٹیوں پر انگلستان آکر چند ہفتے آرام کرکے ہمارے پورے سال کی آمدنی سے زیادہ شاپنگ کرکے چلے جاتے ہیں تو ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ان کی بیگمات اور اہل خانہ سردی کی شاپنگ کیلئے کرسمس کے دنوں میں یہاں آنا پسند کرتے ہیں تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں تم بس اوورسیز پاکستانی ہو اوورسیز کی حد تک ہی رہو۔ تم نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لے رکھا ہے وہ تو تم بس دکھاوے کی حد تک برطانوی حکومت کے خلاف ملین مارچ کرتے ہو اور اپنے علاقے کے ایم پی کے سامنے پاکستان اور کشمیر کی بات کرتے ہو مگر ہم نے تمہیں اندر سے دیکھ لیا ہے، دل پڑھ لیا ہے، تم اندر سے بدل چکے ہو، تم ہمارے نہیں ان کے ہو۔ دیکھو ہمارے غیرت مند بہادر اور امریکہ یا برطانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے حکمرانوں نے ان سیاسی اور قومی رہنماؤں نے کبھی امریکہ اور برطانیہ کی ہاں میں ہاں ملائی ہے ہمیشہ سینہ تان کر ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں کبھی کبھی تھک جاتے ہیں تو ہا تھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ہمارے پاکستانی حکمران جنہوں نے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے نام کا حلف لیا ہوا ہے اور زندگی بھر اس حلف کی وفاداری نبھاتے اور پاسداری کرتے ہیں تم بیرون ملک پاکستان کوئی حق نہیں رکھتے کہ ان پر ہمارے ملک ہمارے آئینی اداروں ہماری خود ساختہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے بارے میں ایک لفظ بھی کہو۔ خبردار آئندہ کبھی ہماری اصلاح کی کوشش نہ کرنا بڑے آئے پاکستانی: ورنہ ہم نیکوپ کارڈ بھی چھین لیں گے، اپنی اوقات میں رہو۔